(آیت 12) ➊ يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَآءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ …: عائشہ رضی اللہ عنھا نے بیان کیا کہ جو مومن عورتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کر کے آتیں آپ ان کا امتحان اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ساتھ لیتے تھے: «يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَآءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ … غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ» تو ان مومن عورتوں میں سے جو اس شرط کا اقرار کر لیتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرماتے: [ قَدْ بَايَعْتُكِ ]”میں نے تم سے بیعت لے لی۔“ صرف کلام کے ساتھ اور اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے بیعت لیتے وقت کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا، آپ ان سے صرف ان الفاظ کے ساتھ بیعت لیتے تھے: [ قَدْ بَايَعْتُكِ عَلٰی ذٰلِكَ ][ بخاري، التفسیر، سورۃ الممتحنۃ، باب: «إذا جاء کم المؤمنات مھاجرات»: ۴۸۹۱ ]”میں نے ان باتوں پر تم سے بیعت لے لی۔“ امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ میں چند عورتوں کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ سے بیعت کرنے کے لیے آئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے قرآن کی اس آیت کے مطابق بیعت لی: «عَلٰۤى اَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَيْـًٔا …» اور فرمایا: [ فِيْمَا اسْتَطَعْتُنَّ وَأَطَقْتُنَّ ]”جتنی تم استطاعت اور طاقت رکھو۔“ ہم نے کہا: ”اللہ اور اس کا رسول ہم سے زیادہ ہم پر رحم کرنے والے ہیں۔“ ہم نے کہا: ”یا رسول اللہ! کیا آپ ہم سے مصافحہ نہیں کرتے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِنِّيْ لاَ أُصَافِحُ النِّسَاءَ إِنَّمَا قَوْلِيْ لاِمْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ كَقَوْلِيْ لِمِائَةِ امْرَأَةٍ ][ مسند أحمد: 357/6، ح: ۲۷۰۰۹۔ ترمذي، السیر، باب ما جاء في بیعۃ النساء: ۱۵۹۷، وصححہ الترمذي والألباني ]”میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، میری بات ایک عورت سے اسی طرح ہے جیسے ایک سو عورتوں سے ہو۔“
➋ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت جیسے اہم موقع پر کسی عورت سے مصافحہ نہیں کیا تو کسی اور کے لیے غیر محرم عورت سے مصافحہ کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ کفار کی تقلید میں غیر محرم عورتوں سے مصافحے کا رواج اور تقدس کے پردے میں پیروں کا اجنبی عورتوں سے مصافحہ دونوں حرام ہیں، کیونکہ نیت کے خلل کے ساتھ وہ زنا کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں اور سد ذرائع (گناہ کے ذریعوں سے روکنا) شریعت کا مسلّم اصول ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ فَالْعَيْنَانِ زِنَاهُمَا النَّظَرُ وَالْأُذُنَانِ زِنَاهُمَا الْاِسْتِمَاعُ وَاللِّسَانُ زِنَاهُ الْكَلَامُ وَالْيَدُ زِنَاهَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلُ زِنَاهَا الْخُطَا وَالْقَلْبُ يَهْوٰی وَيَتَمَنّٰی وَيُصَدِّقُ ذٰلِكَ الْفَرْجُ وَيُكَذِّبُهُ ][ مسلم، القدر، باب قدر علی ابن آدم حظہ من الزنی وغیرہ: ۲۱ /۲۶۵۷ ]”پس آنکھیں، ان کا زنا دیکھنا ہے اور کان، ان کا زنا توجہ سے سننا ہے اور زبان، اس کا زنا کلام ہے اور ہاتھ، اس کا زنا پکڑنا ہے اور پاؤں، اس کا زنا چلنا ہے اور دل خواہش کرتا ہے اور تمنا کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق کر دیتی ہے یا اس کی تکذیب کر دیتی ہے۔“
➌ جاہلی معاشرے میں اللہ کے ساتھ شرک، چوری، زنا، قتل اولاد اور بہتان کا رواج عام تھا، اس لیے ان کا خاص طور پر ذکر کر کے ان سے منع فرمایا، جیسا کہ وفد عبدالقیس کو خاص طور پر ان برتنوں کے استعمال سے بھی منع فرما دیا جن میں شراب بنائی جاتی تھی، کیونکہ وہ مسلمان ہو چکے تھے مگر ابھی تک ان میں شراب نوشی کا رواج باقی تھا۔ رہی دوسری منع کردہ چیزیں یا وہ چیزیں جن پر عمل کا حکم دیا ہے، تو وہ سب ” وَ لَا يَعْصِيْنَكَ فِيْ مَعْرُوْفٍ “ میں آگئی ہیں۔ یہاں چونکہ عورتوں کی آمد کا ذکر ہے اس لیے ان کا نام لیا، ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں سے بھی انھی باتوں پر بیعت لیتے تھے۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر جب آپ کے گرد آپ کے اصحاب کی ایک جماعت موجود تھی فرمایا: [ بَايِعُوْنِيْ عَلٰی أَنْ لاَ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ شَيْئًا، وَلاَ تَسْرِقُوْا، وَلاَ تَزْنُوْا، وَلاَ تَقْتُلُوْا أَوْلاَدَكُمْ، وَلاَ تَأْتُوْا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُوْنَهُ بَيْنَ أَيْدِيْكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ، وَلاَ تَعْصُوْا فِيْ مَعْرُوْفٍ، فَمَنْ وَفٰی مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَی اللّٰهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِكَ شَيْئًا فَعُوْقِبَ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِكَ شَيْئًا ثُمَّ سَتَرَهُ اللّٰهُ فَهُوَ إِلَی اللّٰهِ، إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ وَ إِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ، فَبَايَعْنَاهُ عَلٰی ذٰلِكَ ][بخاري، الإیمان، باب علامۃ الإیمان حب الأنصار: ۱۸ ]”مجھ سے اس پر بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرو گے اور چوری نہیں کرو گے اور زنا نہیں کرو گے اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے اور کوئی بہتان نہیں لاؤ گے جسے تم اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان گھڑ کر لا رہے ہو گے اور کسی نیک کام میں نافرمانی نہیں کرو گے۔ پھر تم میں سے جس نے اس عہد کو پورا کیا اس کا اجر اللہ پر ہے اور جس نے ان میں سے کوئی کام کر لیا، پھر اسے دنیا میں اس کی سزا مل گئی تو وہ اس کے لیے گناہ دور کرنے کا باعث ہے اور جس نے ان میں سے کوئی کام کیا، پھر اللہ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو وہ اللہ کے سپرد ہے، اگر چاہے تو اسے معاف کر دے اور اگر چاہے تو اسے سزا دے۔“ تو ہم نے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لی۔“
حدیبیہ اور فتح مکہ کے موقع پر ہجرت کر کے آنے والی عورتوں کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے ان باتوں پر بیعت لی ہے۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے موقع پر مردوں کو خطبہ دینے کے بعد عورتوں کی طرف آئے اور فرمایا: «يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَآءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ …» پھر جب آپ آیت کی تلاوت سے فارغ ہوئے تو عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا: [ آنْتُنَّ عَلٰی ذٰلِكَ؟ ]”کیا تم اس پر قائم ہو؟“ ان میں سے ایک عورت نے کہا، جس کے سوا کسی نے جواب نہیں دیا: [ نَعَمْ ]”جی ہاں!“[ بخاري، العیدین، باب موعظۃ الإمام النساء یوم العید: ۹۷۹]
➍ وَ لَا يَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ: اس میں حمل گرانا بھی شامل ہے، خواہ جائز ہو یا ناجائز۔
➎ وَ لَا يَاْتِيْنَ بِبُهْتَانٍ يَّفْتَرِيْنَهٗ بَيْنَ اَيْدِيْهِنَّ وَ اَرْجُلِهِنَّ: ”بُهْتَانٌ“ کسی کے ذمے گھڑ کر لگایا ہوا جھوٹ جسے سن کر وہ مبہوت اور ششدر رہ جائے۔ اکثر مفسرین نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ کوئی عورت کسی دوسری عورت کا بچہ لا کر خاوند اور دوسرے لوگوں کے سامنے یہ ظاہر کرے کہ اس کی ولادت اس کے شکم سے ہوئی ہے، خواہ وہ کوئی گرا ہوا بچہ اٹھا کر لے آئی ہو یا کسی اور طرح سے لے آئی ہو۔ ظاہر ہے یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب خاوند مدت تک غائب رہا ہو، یا خاوند کے بجائے کسی اور سے بچے کو جنم دے کر اسے خاوند کا بچہ ظاہر کرے۔ ” بَيْنَ اَيْدِيْهِنَّ وَ اَرْجُلِهِنَّ “(ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان) کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا کہ بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی ولادت عورت کے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان ہوتی ہے۔ مگر ”بہتان“ کو انھی صورتوں کے ساتھ خاص کرنا مشکل ہے، کیونکہ ایک تو بہتان کا لفظ عام ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں سے بیعت لی تو ان کے لیے بھی یہ الفاظ استعمال فرمائے: [ وَلاَ تَأْتُوْا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُوْنَهُ بَيْنَ أَيْدِيْكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ ][ بخاري: ۱۸ ]”اور نہ تم کوئی بہتان لاؤ گے جو اپنے ہاتھوں اور اپنے پاؤں کے درمیان گھڑ رہے ہوں۔“ جیسا کہ پچھلے فائدے میں یہ حدیث گزری ہے۔ ظاہر ہے بہتان کی یہ صورتیں مردوں سے متعلق تصور نہیں کی جا سکتیں۔ عربی زبان میں ”بَيْنَ أَيْدِيْهِمْ“ کا معنی ”سامنے“ ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا: «يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ» [ البقرۃ: ۲۵۵ ]”وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے۔“” وَأَرْجُلِهِمْ“ کا لفظ اس کی تاکید کے لیے ہے، اس لیے اس کا سادہ مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس بات کا وجود ہی نہیں اسے گھڑ کر پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنے سامنے لا کر پیش نہ کر دیا کریں۔ اور یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ اس بات کی پروا نہ کرتے ہوئے کہ قیامت کے دن ان کے ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف شہادت دیں گے، وہ اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے سامنے کسی پر بہتان نہ لگا دیا کریں، بلکہ انھیں چاہیے کہ اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ چار گواہوں کی موجودگی میں بہتان لگا رہی ہیں۔ اس مطلب کی تائید دوسری جگہ بہتان باندھنے والوں کے ملعون ہونے کے سلسلے میں ہاتھوں اور پاؤں کی شہادت کے ذکر سے ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا: «اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ (23) يَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَيْدِيْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ (24) يَوْمَىِٕذٍ يُّوَفِّيْهِمُ اللّٰهُ دِيْنَهُمُ الْحَقَّ وَ يَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِيْنُ» [ النور: ۲۳ تا ۲۵ ]”بے شک وہ لوگ جو پاک دامن، بے خبر مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں لعنت کیے گئے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے خلاف اس کی شہادت دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔ اس دن اللہ انھیں ان کا صحیح بدلا پورا پورا دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے، جو ظاہر کرنے والا ہے۔“ الغرض آیت میں بہتان کی ایک صورت نہیں بلکہ ہر قسم کے بہتان سے اجتناب کا عہد لیا گیا ہے۔
➏ وَ لَا يَعْصِيْنَكَ فِيْ مَعْرُوْفٍ: اس جملے میں پوری شریعت پر عمل کا اقرار آگیا۔ اس اقرار میں ” فِيْ مَعْرُوْفٍ “ کی شرط لگانے کی کئی توجیہیں ہیں، ایک یہ کہ اس سے اس بات کی صراحت مقصود ہے کہ رسول حکم ہی معروف کا دیتا ہے، پھر اس کی معصیت کی کیا گنجائش ہو سکتی ہے۔ دوسری یہ کہ اگرچہ یہ بات ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم معروف کے سوا ہو ہی نہیں سکتا، مگر اس کے ساتھ ” مَعْرُوْفٍ “(نیک) ہونے کی قید اس لیے لگائی تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ مخلوق کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے کام میں جائز نہیں، یہاں تک کہ رسول کی اطاعت بھی اس شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ تیسری یہ کہ یہاں معاملہ عورتوں کا ہے، ان کو مطلق اطاعت کے حکم سے کہ وہ آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کریں گی، شیطان کسی کے دل میں گمراہی کا وسوسہ پیدا کر سکتا تھا، اس کا راستہ روکنے کے لیے یہ قید لگا دی۔
➐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی کئی صورتیں مروی ہیں، جن میں سے ایک اسلام کی بیعت ہے، ایک جہاد کی، ایک بعض باتوں کی پابندی کی، مثلاً یہ کہ وہ کسی سے سوال نہیں کریں گے اور ایک کبائر سے توبہ اور اطاعت کے عہد کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام سے یہ تو ثابت ہے کہ انھوں نے لوگوں سے اسلام لانے کی بیعت لی اور امراء سے اطاعت کی بیعت کی، مگر خلیفہ یا امیر کے علاوہ کسی اور شخص کا لوگوں سے اپنا مرید بنانے کی بیعت لینا، جیسا کہ صوفیہ کا طریقہ ہے، صحابہ کرام کے دور بلکہ پورے خیر القرون میں ثابت نہیں، کیونکہ اس سے مسلمانوں میں فرقے اور گروہ پیدا ہوتے ہیں۔ پھر یہ معاملہ نقشبندی، سہروردی، چشتی اور قادری تک محدود نہیں رہتا، بلکہ ہر ایک اپنی الگ گدی اور الگ حلقہ قائم کر لیتا ہے جو صرف اس کے حکم کا پابند ہوتا ہے اور ہر پیر و مرشد کا تقاضا ہوتا ہے کہ مرید کا علم چونکہ ناقص ہے اس لیے اگر اس کا مرشد اسے شریعت کے صریح خلاف حکم دے تو وہ بھی اس کے لیے ماننا ضروری ہے، کیونکہ اس میں بھی کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ ان حضرات نے ” فِيْ مَعْرُوْفٍ “ کی قید بھی اڑا دی، چنانچہ ان کے لسان الغیب حافظ شیرازی کہہ گئے ہیں:
بمے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نبود زراہ و رسم منزلہا
”اگر پیر مغاں تمھیں حکم دیتا ہے تو مصلے کو شراب سے رنگ لو، کیونکہ سالک منزلوں کے راہ و رسم سے بے خبر نہیں ہوتا۔“ حقیقت یہ ہے کہ پیری مریدی کا یہ سلسلہ امت کے کتاب و سنت سے دوری اور اس کے باہمی افتراق کا خوف ناک باعث ہے۔ آپ لاکھ قرآن و سنت سنائیں، پیر کے ہاتھ میں ہاتھ دینے والا یہی کہے گا کہ کیا ہمارے پیر کو یہ معلوم نہیں۔ رہی یہ بات کہ ہم بطور استاذ اور ہادی پیر کی بیعت کرتے ہیں، تو ایک تو اس کے لیے بیعت کی ضرورت نہیں، پھر اپنے آپ کو ایک ہی استاذ اور ہادی کے حکم کا پابند بنانا کہاں سے ثابت ہوا؟ آپ متعدد اساتذہ اور رہنماؤں سے تعلیم اور رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں اور کرنی چاہیے۔ ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ہر صورت ہی درست تھی، کیونکہ وہ نبی تھے، ان کے ہوتے کسی اور کی بیعت نہ تھی اور نہ ہی اس سے افتراق یا انتشار پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔ پھر خلیفہ اور امیر کی بیعت درست ہے، کیونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے اور ایک خلیفہ کے ہوتے ہوئے کسی اور کی بیعت جائز نہیں۔
➑ فَبَايِعْهُنَّ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ: یعنی اگر وہ ان باتوں کا عہد کریں تو آپ ان کی بیعت قبول کر لیں اور اس سے پہلے ان سے جو لغزشیں ہوئیں یا آئندہ بشری کمزوری کی بنا پر ہوں گی ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں، کیونکہ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔