(آیت 10) ➊ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا جَآءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ …: ان آیات میں مشرکین سے قطع تعلق کی وجہ سے پیش آنے والے کئی معاملات کا حکم بیان فرمایا، مثلاً کفار کی بیویاں جو مسلمان ہو کر ہجرت کر کے مسلمانوں کے پاس آ جائیں، انھیں واپس کیا جائے گا یا نہیں اور میاں بیوی میں سے کسی ایک کے مسلمان ہو جانے سے ان کا باہمی نکاح باقی رہتا ہے یا نہیں وغیرہ۔
➋ حدیبیہ کے موقع پر کفار کے نمائندے سہیل بن عمرو نے صلح کی جو شرائط طے کی تھیں ان میں سے ایک شرط جو مسلمانوں کو منظور نہ تھی مگر سہیل نے اس کے بغیر صلح کرنے سے انکار کر دیا، یہ تھی: [ لاَ يَأْتِيْكَ مِنَّا أَحَدٌ وَ إِنْ كَانَ عَلٰی دِيْنِكَ إِلاَّ رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا وَخَلَّيْتَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ ][ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الحدیبیۃ: ۴۱۸۰،۴۱۸۱ ]”ہم میں سے جو بھی آپ کے پاس آئے گا خواہ وہ آپ کے دین پر ہو، آپ اسے ہماری طرف واپس کریں گے اور ہمارے اور اس کے درمیان کوئی دخل نہیں دیں گے۔“ اللہ تعالیٰ کا عجیب تصرف دیکھیے کہ سہیل اس میں یہ صراحت نہ لکھوا سکا کہ اس میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے: [ فَقَالَ سُهَيْلٌ وَ عَلٰی أَنَّهُ لاَ يَأْتِيْكَ مِنَّا رَجُلٌ وَ إِنْ كَانَ عَلٰی دِيْنِكَ إِلاَّ رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا ][بخاري، الشروط، باب الشروط في الجہاد و المصالحۃ …: ۲۷۳۱، ۲۷۳۲ ]”سہیل نے کہا، یہ شرط بھی کہ ہماری طرف سے جو آدمی بھی آپ کے پاس جائے گا، چاہے وہ آپ کے دین ہی پر کیوں نہ ہو، آپ اسے ہمیں واپس کر دیں گے۔“ اب اس کے بعد کفار یہ کہہ ہی نہیں سکتے تھے کہ آپ مسلمان ہونے والی عورتوں کو واپس کیوں نہیں کرتے۔ جب معاہدہ طے ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کو قربانی کرنے اور سر منڈوانے کے ساتھ احرام کھولنے کا حکم دے دیا۔ اس موقع پر سہیل کا بیٹا ابو جندل رضی اللہ عنہ مسلمان ہو کر آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے باپ کے مطالبے پر اسے واپس کر دیا، اس کے علاوہ بھی صلح کی اس مدت میں آپ کے پاس مکہ سے جو مرد آیا آپ نے اسے واپس کر دیا خواہ وہ مسلمان ہی تھا۔ اب کئی عورتیں جو ایمان لے آئی تھیں ہجرت کر کے مدینہ پہنچیں، ان میں ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط بھی تھیں۔ اس وقت وہ جوان تھیں، ان کے گھر والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انھیں واپس کر دینے کا مطالبہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ہدایات نازل فرمائیں۔ [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الحدیبیۃ: ۴۱۸۰،۴۱۸۱ ]
➌ فَامْتَحِنُوْهُنَّ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِاِيْمَانِهِنَّ …: ایمان والوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جب مومن عورتیں ہجرت کر کے تمھارے پاس آئیں تو ان کی جانچ پڑتال کرو کہ وہ ایمان ہی کی وجہ سے ہجرت کر کے آئی ہیں یا کوئی اور وجہ ہے۔ اس جانچ پڑتال میں تم اس بات کے مکلف نہیں کہ ان کے دل میں چھپی ہوئی بات معلوم کرو، یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے، تمھارا کام یہ ہے کہ اگر وہ ان باتوں کا عہد کریں جو اگلی آیت (۱۲) میں آ رہی ہیں تو انھیں کفار کی طرف واپس مت کرو۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کر کے آنے والے کسی مرد کے امتحان کا حکم نہیں دیا، کیونکہ ان کے امتحان کے لیے ہجرت اور جہاد کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام مہاجرین کے صادق الایمان ہونے کی شہادت دی ہے۔ (دیکھیے حشر: ۸) جب کہ عورتوں پر جہاد فرض نہیں جس سے کھرے کھوٹے کی تمیز ہوتی ہے۔ (شنقیطی)
➍ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَ لَا هُمْ يَحِلُّوْنَ لَهُنَّ: اس میں انھیں واپس نہ کرنے کی علت بیان فرمائی ہے کہ نہ مومن عورتیں کفار کے لیے حلال ہیں اور نہ ہی کافر مرد مومن عورتوں کے لیے حلال ہیں، اس لیے اگر کوئی عورت مسلمان ہو جائے تو اسے اس کے کافر خاوند سے جدا کر لیا جائے گا۔ پھر اگر وہ اپنے خاوند کے مسلمان ہونے کا انتظار کرے اور خاوند مسلمان ہو جائے تو نکاح برقرار رہے گا، خواہ عورت پہلے ہجرت کر کے آئی ہو اور خاوند بعد میں ہجرت کرے، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا: [ رَدَّ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلٰی أَبِي الْعَاصِ بْنِ الرَّبِيْعِ، بَعْدَ سِتِّ سِنِيْنَ بِالنِّكَاحِ الْأَوَّلِ وَلَمْ يُحْدِثْ نِكَاحًا ][ترمذي، النکاح، باب ما جاء في الزوجین المشرکین یسلم أحدھما: ۱۱۴۳، وقال الألباني صحیح ]”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنھا کو ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے ساتھ چھ سال کے بعد پہلے نکاح ہی میں واپس بھیج دیا اور نیا نکاح نہیں کیا۔“ اور اگر عورت اپنے خاوند کے مسلمان ہونے کا انتظار نہ کرے تو اسے اجازت ہے کہ کسی مسلمان کے ساتھ نکاح کر لے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
➎ وَ اٰتُوْهُمْ مَّاۤ اَنْفَقُوْا: یعنی ہجرت کر کے آنے والی مسلم عورتوں کے مشرک خاوندوں نے ان کے نکاح پر جو خرچ کیا ہے وہ انھیں واپس کر دو۔ یاد رہے کہ یہ احکام ان مشرکین کی عورتوں کے بارے میں ہیں جن کی مسلمانوں کے ساتھ صلح ہو۔
➏ وَ لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ اِذَاۤ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ: یعنی اگر وہ اپنے خاوندوں کے مسلمان ہو کر آنے کا انتظار نہ کریں اور نکاح کرنا چاہیں تو مسلمانوں کو ان سے نکاح کرنے کی اجازت ہے، جب ان شرطوں کو ملحوظ رکھا جائے جو نکاح کے لیے ضروری ہیں، مثلاً ولی کی اجازت، عدت پوری ہونا، مہر کی ادائیگی وغیرہ۔
➐ وَ لَا تُمْسِكُوْا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ: ”عِصَمٌ“”عِصْمَةٌ“ کی جمع ہے، مراد نکاح ہے اور ” الْكَوَافِرِ “”كَافِرَةٌ“ کی جمع ہے، جیسے ”ضَارِبَةٌ“ کی جمع ”ضَوَارِبُ“ ہے، کافر عورتیں۔ یعنی جو مرد مسلمان ہو جائیں اور ان کی بیویاں کفر پر قائم رہیں ان کے لیے انھیں اپنے نکاح میں باقی رکھنا جائز نہیں، بلکہ طلاق دے دینا لازم ہے۔ چنانچہ مسور اور مروان بن حکم سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے دن کفار قریش سے معاہدہ کیا تو آپ کے پاس کچھ مومن عورتیں آئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: «يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا جَآءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ … وَ لَا تُمْسِكُوْا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ» [ الممتحنۃ: ۱۰ ]”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تمھارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں…اور کافر عورتوں کی عصمتیں روک کر نہ رکھو۔“ تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس دن اپنی دو (مشرک) عورتوں کو طلاق دے دی، جن میں سے ایک کے ساتھ معاویہ بن ابو سفیان نے اور دوسری کے ساتھ صفوان بن امیہ نے نکاح کر لیا (جو اس وقت مشرک تھے)۔ [ بخاري، الشروط، باب الشروط في الجہاد…: ۲۷۳۱،۲۷۳۲ ] ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا کہ قریبہ بنت ابی امیہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی، انھوں نے اسے طلاق دے دی تو اس سے معاویہ بن ابو سفیان نے نکاح کر لیا اور ام حکم بنت ابو سفیان عیاض بن غنم فہری کے نکاح میں تھی، انھوں نے اسے طلاق دے دی تو اس سے عبداللہ بن عثمان ثقفی نے نکاح کر لیا۔ [ بخاري، الطلاق، باب نکاح من أسلم من المشرکات و عدتہن: ۵۲۸۷ ]
➑ وَ سْـَٔلُوْا مَاۤ اَنْفَقْتُمْ وَ لْيَسْـَٔلُوْا مَاۤ اَنْفَقُوْا …: اس کا عطف ” وَ اٰتُوْهُمْ مَّاۤ اَنْفَقُوْا “ پر ہے۔ ہجرت کر کے آنے والی عورتیں یا تو ان مشرکین میں سے ہوتی تھیں جن کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ تھی، ان کے متعلق عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا: ”مشرکین کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں سے دو طرح کا تھا، ایک اہلِ حرب (لڑائی والے) مشرک، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے لڑتے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑتے تھے اور ایک اہل عہد (معاہدے والے) مشرک۔ اہل حرب مشرکین میں سے کوئی عورت جب ہجرت کر کے آتی تو اسے اس وقت تک نکاح کا پیغام نہیں دیا جاتا تھا جب تک وہ حیض آنے کے بعد پاک نہیں ہوتی تھی۔ جب پاک ہو جاتی تو اس کے لیے نکاح حلال ہو جاتا، پھر اگر اس کا خاوند اس کے نکاح کرنے سے پہلے ہجرت کر کے آ جاتا تو وہ اسے واپس کر دی جاتی اور اگر ان کا کوئی غلام یا لونڈی ہجرت کر کے آتے تو دونوں آزاد ہو جاتے اور انھیں وہ حقوق حاصل ہو جاتے جو دوسرے مہاجرین کو حاصل تھے۔ (پھر معاہدے والوں کے متعلق مجاہد کی حدیث کی طرح ذکر کیا) اور اگر معاہدے والے مشرکین کا کوئی غلام یا لونڈی ہجرت کر کے آتے تو انھیں واپس نہیں کیا جاتا تھا اور ان کی قیمتیں دے دی جاتی تھیں۔“[ بخاري، الطلاق، باب نکاح من أسلم من المشرکات وعدتھن: ۵۲۸۶ ]
ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورتوں کی دوسری قسم ان مشرکین کی بیویاں تھیں جن کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدۂ صلح تھا۔ اس آیت میں ان کا حکم بیان ہوا ہے کہ انھیں مشرکین کی طرف واپس مت کرو، بلکہ انھوں نے ان کے نکاح پر جو کچھ خرچ کیا ہے وہ انھیں دے دو اور کافر عورتوں کو بھی روک کر مت رکھو، بلکہ انھیں طلاق دے دو اور چونکہ تمھاری آپس میں صلح ہے اس لیے جن مشرک عورتوں کو تم نے چھوڑا ہے ان پر کیا ہوا خرچ تم مشرکین سے مانگ لو اور وہ ان عورتوں پر کیا ہوا خرچ تم سے مانگ لیں جو ہجرت کر کے تمھارے پاس آئی ہیں۔