(آیت 6) ➊ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْهِمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ …: اس سے پہلے ” قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْۤ اِبْرٰهِيْمَ “ میں یہی بات ذکر ہوئی ہے، لامِ قسم کے ساتھ اسے دوبارہ لانے سے ایک تو اس حکم کی تاکید مقصود ہے اور ایک اس کے بعد ” لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْيَوْمَ الْاٰخِرَ “ لا کر یہ بتانا مقصود ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھی ان لوگوں کے لیے نمونہ نہیں جن کی ساری جد و جہد دنیا کے لیے ہے، بلکہ وہ صرف ان لوگوں کے لیے نمونہ ہیں جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتے ہیں۔
➋ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْيَوْمَ الْاٰخِرَ: اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ احزاب (۲۱) کی تفسیر۔
➌ وَ مَنْ يَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ: یعنی جو اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت کی امید سے منہ موڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو بھی اس کی کوئی پروا نہیں، کیونکہ وہ تو غنی و حمید ہے اور غنی و حمید بھی ایسا کہ اس کے سوا کوئی غنی و حمید ہے ہی نہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ فاطر (۱۵)، حج (۶۴) اور حدید (۲۴) کی تفسیر۔