تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 4)قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْۤ اِبْرٰهِيْمَ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗ: اُسْوَةٌ اور قُدْوَةٌ کے معنی ہیں جس کی پیروی کی جائے، نمونہ (اچھا ہو یا برا)، اس لیے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو اسوۂ حسنہ فرمایا۔ یعنی اللہ کے دشمن کفار و مشرکین کے ساتھ دوستی کے سلسلے میں تمھارے لیے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں میں پہلے سے ایک اچھا نمونہ موجود تھا جو تمھارے پیش نظر رہنا چاہیے تھا۔ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗ سے مراد ان پر ایمان لانے والے ساتھی ہیں۔

اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنْكُمْ …: بُرَءٰٓؤُا بَرِيْءٌ کی جمع ہے، جیسے كَرِيْمٌ کی جمع كُرَمَاءُ ہے۔ یعنی ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھی تمھارے لیے اس بات میں نمونہ ہیں کہ انھوں نے اپنی مشرک قوم سے، ان کے شرک سے اور ان کے معبودوں سے بری اور لاتعلق ہونے کا اعلان کر دیا۔ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ میں مَا مصدریہ بھی ہو سکتا ہے اور موصولہ بھی۔

كَفَرْنَا بِكُمْ: ہم تمھیں نہیں مانتے، نہ تمھارے دین کو، نہ تمھارے خداؤں کو اور نہ ان کی عبادت کو۔

وَ بَدَا بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَ الْبَغْضَآءُ اَبَدًا …: یعنی ہمارے اللہ پر ایمان لانے اور تمھارے کفر پر قائم رہنے کے بعد ہمارے اور تمھارے درمیان کھلی دشمنی اور دلی بغض ہمیشہ کے لیے ظاہر ہوگیا ہے، یہاں تک کہ تم اکیلے اللہ پر ایمان لے آؤ۔

اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ: یعنی ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے، سوائے اس بات کے جو ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے کہی کہ میں تمھارے لیے بخشش کی دعا ضرور کروں گا۔ اس بات میں وہ تمھارے لیے نمونہ نہیں ہیں اور نہ ہی اس میں ان کی پیروی جائز ہے۔ مشرکین کے لیے استغفار کی ممانعت اور ابراہیم علیہ السلام کے استغفار کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ توبہ کی آیات (114،113) کی تفسیر۔

وَ مَاۤ اَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ: یعنی میں تمھارے لیے استغفار ضرور کروں گا، مگر میں تمھارے لیے اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کے دلوانے کا مالک نہیں، وہ چاہے گا تو تمھیں بخش دے گا چاہے تو عذاب دے گا۔ معلوم ہوا کہ یہ اختیار پیغمبروں کے پاس بھی نہیں کہ وہ جسے چاہیں بخشوا لیں، خواہ وہ ابراہیم علیہ السلام کے والد ہوں یا نوح علیہ السلام کا بیٹا یا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب ہوں۔

رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا: یہ ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کا کلام ہے جو اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ … سے پہلے کلام کے ساتھ ملا ہوا ہے اور ان چیزوں میں شامل ہے جن میں ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی پیروی کا حکم ہے۔ گویا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے اپنی قوم سے یہ کہا: «‏‏‏‏اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنْكُمْ ...... حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗۤ» ‏‏‏‏ اور اپنے رب سے یہ کہا: «‏‏‏‏رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا ...... اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ» ‏‏‏‏ یہ دونوں باتیں کہنے میں وہ ہمارے لیے نمونہ ہیں اور ہمیں ان کی پیروی کا حکم ہے۔

وَ اِلَيْكَ اَنَبْنَا وَ اِلَيْكَ الْمَصِيْرُ: اَنَبْنَا أَنَابَ يُنِيْبُ إِنَابَةً (افعال) سے جمع متکلم ماضی معلوم کا صیغہ ہے۔ الْمَصِيْرُ صَارَ يَصِيْرُ سے مصدر میمی ہے۔ عَلَيْكَ اور اِلَيْكَ پہلے آنے سے قصر کا مفہوم حاصل ہو رہا ہے کہ اے ہمارے رب! ہم نے تجھی پر بھروسا کیا، کسی اور پر نہیں اور تیری ہی طرف رجوع کیا، کسی اور کی طرف نہیں، (تو نے ہی سب کو پیدا کیا) اور (آخر کار) تیری ہی طرف واپس آنا ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.