(آیت 3) ➊ لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ: ”أَرْحَامٌ“”رَحْمٌ“ کی جمع ہے، رشتہ داری۔ مراد ”ذُوُوا الْأَرْحَامِ“ ہے، رشتہ دار۔ یعنی وہ رشتہ دار اور اولاد جن کی خاطر تم اتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کر رہے ہو قیامت کے دن وہ تمھیں ہرگز کوئی فائدہ نہیں دیں گے کہ تمھیں اس گناہ کی سزا سے یہ کہہ کر بچا لیں کہ انھوں نے ہماری خاطر یہ غلطی کی تھی۔
➋ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ: اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ تمھارے درمیان فیصلہ کرے گا۔ دوسرا یہ کہ وہ قیامت کے دن تمھارے درمیان اور تمھارے ارحام و اولاد کے درمیان جدائی ڈال دے گا، کسی کو کسی کا ہوش نہ ہوگا، جیسا کہ فرمایا: «يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْهِ (34) وَ اُمِّهٖ وَ اَبِيْهِ (35) وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِيْهِ (36) لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ يُّغْنِيْهِ»[ عبس: ۳۴ تا ۳۷ ]”جس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا۔ اور اپنی ماں اور اپنے باپ(سے)۔ اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے۔ اس دن ان میں سے ہر شخص کی ایک ایسی حالت ہوگی جو اسے (دوسروں سے) بے پروا بنا دے گی۔“ پچھلی آیت میں ان لوگوں کا حال بتایا جن سے دوستی کی جا رہی ہے اور اس آیت میں ان لوگوں کا حال بیان کیا جن کی خاطر کفار سے دوستی کی جا رہی ہے۔
➌ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ: اس میں فرماں برداروں کے لیے وعدہ اور نافرمانوں کے لیے وعید ہے۔