تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

سورۂ حشر میں منافقین کی کفار اہل کتاب کے ساتھ دوستی اور اس کے برے انجام کا بیان تھا، اس سورت میں مشرکین کے ساتھ دوستی سے منع فرمایا، خصوصاً ان مہاجرین کو جن کے بیوی بچے یا عزیز مکہ میں رہ گئے تھے اور وہ اس خیال سے مشرکین سے تعلق قائم رکھنا چاہتے تھے کہ مشرکین اس وجہ سے ان کے بیوی بچوں اور عزیزوں کا خیال رکھیں گے۔

۶ ہجری میں حدیبیہ کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفارِ قریش کے درمیان دس سال کے لیے صلح کا جو معاہدہ ہوا اس کی ایک شق یہ تھی کہ جو قبائل چاہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف بن جائیں اور جو چاہیں کفارِ قریش کے حلیف بن جائیں اور کوئی فریق دوسرے فریق کے حلیف پر نہ حملہ کرے اور نہ حملہ کرنے والوں کی مدد کرے۔ چنانچہ مکہ کے قریب رہنے والے قبائل میں سے بنو بکر قریش کے حلیف بن گئے اور بنو خزاعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف بن گئے۔ ابھی معاہدے کو تقریباً ڈیڑھ سال ہی گزرا تھا کہ بنو بکر نے مسلمانوں کے حلیف بنو خزاعہ پر حملہ کر دیا۔ قریش نے آدمیوں اور اسلحہ سے ان کی مدد کی، وہ بھاگ کر حرم میں آئے تو انھوں نے وہاں بھی انھیں نہیں چھوڑا بلکہ قتل کر دیا۔ بنو خزاعہ کا ایک وفد فریاد لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ پہنچا۔ یہ قریش کی صریح عہد شکنی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سزا دینے اور مکہ پر حملہ کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا اور اس کے لیے خفیہ طور پر تیاری شروع کر دی۔ مقصد یہ تھا کہ اچانک حملے میں کفار مزاحمت نہیں کر سکیں گے اور کشت و خون کی نوبت نہیں آئے گی۔ مسلمانوں کی قیمتی جانیں بھی محفوظ رہیں گی اور کفار میں سے جن کی قسمت میں سعادت لکھی ہو گی مسلمان ہو سکیں گے اور آگے چل کر اسلام کی سربلندی میں حصہ لے سکیں گے۔ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ایک مہاجر صحابی تھے اور بدری تھے، مکہ میں ان کی اولاد اور مال اسباب تھا۔ وہ اصلاً قریش میں سے نہیں تھے، بلکہ ان کے حلیف تھے۔ انھوں نے قریش کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے کی اطلاع دینے کے لیے ان کی طرف ایک خط لکھا اور ایک عورت کے ہاتھ بھیج دیا۔

صحیح بخاری میں اس کی تفصیل آئی ہے، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے، زبیر اور مقداد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا کہ تم چلتے جاؤ یہاں تک روضۂ خاخ (خاخ نامی باغ) تک جا پہنچو، وہاں اونٹنی پر سوار ایک عورت ہوگی، اس سے خط لے آؤ۔ چنانچہ ہم گھوڑے دوڑاتے ہوئے روانہ ہو گئے، یہاں تک کہ ہم اس باغ کے پاس جا پہنچے۔ دیکھا تو اونٹنی پر سوار وہ عورت وہاں تھی، ہم نے اس سے کہا: خط نکال۔ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے کہا: تم ہر صورت خط نکالو گی یا ہم تمھارے کپڑے اتاریں گے۔ چنانچہ اس نے وہ خط اپنی چوٹی سے نکال کے دے دیا۔ ہم اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ دیکھا تو اس میں لکھا تھا کہ یہ خط حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مکہ کے کچھ لوگوں کے نام ہے، جو مشرکین میں سے تھے۔ اس میں انھوں نے انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض امور کی خبر دی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ يَا حَاطِبُ! مَا هٰذَا؟ ] حاطب! یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: یا رسول اللہ! مجھ پر جلدی نہ کریں، میں ایسا آدمی تھا جو قریش کے ساتھ جڑا ہوا تھا، ان کا حلیف تھا، اصلاً ان میں سے نہیں تھا اور آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں ان کی وہاں کئی قرابتیں ہیں، جن کے ذریعے سے وہ اپنے اہل و عیال اور اموال کی حفاظت رکھتے ہیں۔ تو میں نے چاہا کہ جب میرا ان سے کوئی نسبی رشتہ نہیں تو میں ان پر ایک احسان کردوں جس کی وجہ سے وہ میرے گھر والوں کی حفاظت رکھیں۔ میں نے یہ کام نہ اپنے دین سے مرتد ہونے کی وجہ سے کیا ہے اور نہ ہی اسلام لانے کے بعد کفر کو پسند کرنے کی وجہ سے کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكُمْ ] سن لو! اس نے یقینا تم سے سچ کہا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّ اللّٰهَ اطَّلَعَ عَلٰی مَنْ شَهِدَ بَدْرًا قَالَ اعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ ] یہ تو بدر میں شریک ہوا ہے اور تجھے کیا معلوم شاید اللہ نے بدر میں شریک ہونے والوں کو جھانک کر کہا ہو کہ تم جو چاہو کرو، کیونکہ میں نے تمھیں بخش دیا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرما دی: «‏‏‏‏يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ ........ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيْلِ» ‏‏‏‏ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ........ تو یقینا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔ [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الفتح: ۴۲۷۴ ]

(آیت 1) يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ: عَدُوٌّ عَدَا يَعْدُوْ عَدْوًا وَعَدَاوَةً سے فَعُوْلٌ بمعنی فَاعِلٌ کے وزن پر ہے، دشمن۔ فَعِيْلٌ اور فَعُوْلٌ دونوں صیغے واحد، تثنیہ، جمع اور مذکر و مؤنث کے لیے ایک ہی لفظ کے ساتھ آ جاتے ہیں، اس لیے ترجمہ میرے دشمنوں کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہنے کے بجائے کہ کفار اور مشرکین کو دوست نہ بناؤ، یہ فرمایا کہ میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ پھر عَدُوِّيْ (میرے دشمنوں) کا ذکر پہلے کیا اور عَدُوَّكُمْ (اپنے دشمنوں) کا ذکر بعد میں کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کافر و مشرک کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے، کیونکہ ان کی دشمنی کی بنیاد نہ وطن ہے نہ نسب اور نہ مال، بلکہ انھوں نے مسلمانوں کی دشمنی صرف اللہ تعالیٰ کی دشمنی کی وجہ سے اختیار کر رکھی ہے۔ اللہ کی دشمنی کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی توحید، اس کے دین اور اس کے رسول کو نہیں مانتے، اس لیے انھوں نے ان کی شدید مخالفت اور دشمنی اختیار کر رکھی ہے۔ عَدُوِّيْ کو عَدُوَّكُمْ سے پہلے لانے کی مناسبت یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے دین کے دشمن پہلے ہیں، پھر اس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ آیت میں کفار و مشرکین کی عداوت کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو ان کی دوستی سے منع فرمایا گیا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر کفار کی دوستی سے منع کیا گیا ہے اور ساتھ ہی دوستی سے ممانعت کی کوئی نہ کوئی وجہ بیان کی گئی ہے۔ دیکھیے سورۂ آل عمران (۲۸)، نساء (۱۴۴)، مائدہ (57،51) اور سورۂ توبہ (24،23) ان تمام وجوہات میں بنیادی بات یہی ہے کہ وہ تمھارے اور تمھارے دین کے دشمن ہیں، جب تک تم کافر نہ ہو جاؤ وہ کبھی تمھارے دوست نہیں ہو سکتے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۲۰) اور سورۂ نساء (۸۹)۔

تُلْقُوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ: اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ اَلْمَوَدَّةُ تُلْقُوْنَ کا مفعول بہ ہے اور اس پر باء تاکید کے لیے آئی ہے، اس صورت میں معنی یہ ہے کہ تم ان کی طرف دوستی کا پیغام بھیجتے ہو۔ دوسرا معنی یہ کہ تُلْقُوْنَ کا مفعول بہ محذوف ہے: أَيْ تُلْقُوْنَ إِلَيْهِمُ الْأَخْبَارَ بِالْمَوَدَّةِ یعنی تم دوستی کی وجہ سے ان کی طرف خبریں پہنچاتے ہو (جن کا اللہ کے دشمنوں اور تمھارے دشمنوں کو کسی صورت علم نہیں ہونا چاہیے)۔

وَ قَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَآءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّ: یعنی انھوں نے تو وہ حق ماننے ہی سے انکار کر دیا ہے جو تمھارے پاس آیا ہے اور تم ہو کہ ان کی طرف دوستی کے پیغام بھیجتے ہو۔

يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَ اِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْ: اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْ سے پہلے لام محذوف ہے، یعنی انھوں نے صرف کفر اور معمولی دشمنی ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ رشتہ داری اور محبت کے تمام سلسلے قطع کر کے رسول کو اور تمھیں اتنی ایذا دی کہ تم سب کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کر دیا، صرف اس وجہ سے کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو۔ اس جملے کی ہم معنی آیات کے لیے دیکھیے سورۂ بروج (۸) اور سورۂ حج (۴۰) يُخْرِجُوْنَ مضارع کا صیغہ لانے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ انھوں نے تمھیں نکالا ہے بلکہ وہ تمھیں نکالنے پر ابھی تک قائم ہیں اور اب بھی تمھیں تمھارے گھروں میں واپس نہیں آنے دے رہے۔ اس میں مسلمانوں کو کفار کی دشمنی کے لیے ابھارا گیا ہے کہ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ وہ تمھارے رسول کو اور تمھیں نکال رہے ہیں اور تم ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہو۔

اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِيْ سَبِيْلِيْ …: جِهَادًا اور ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِيْ دونوں خَرَجْتُمْ کے مفعول لہ ہیں اور اِنْ كُنْتُمْ شرط کی جزا محذوف ہے جو آیت کے پہلے جملے لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ سے معلوم ہو رہی ہے، یعنی اگر تم میرے راستے میں جہاد کے لیے اور میری رضا تلاش کرنے کے لیے نکلے ہو تو میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ۔

تُسِرُّوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ …: یعنی تم پر تعجب ہے کہ تم چھپ کر ان کی طرف دوستی کے پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ میں ان باتوں کو جو تم نے چھپائیں اور جو ظاہر کیں تم سے اور ہر ایک سے بڑھ کر جاننے والا ہوں۔ سو تمھیں یہ سوچ کر بھی ایسی حرکت سے اجتناب کرنا چاہیے کہ تمھارا مالک تمھارے ہر کام سے پوری طرح آگاہ ہے اور تم اپنی کوئی حرکت اس سے کسی طرح بھی نہیں چھپا سکتے۔

وَ مَنْ يَّفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيْلِ: یعنی یہ صرف حاطب رضی اللہ عنہ یا کسی مہاجر کی مشرکینِ مکہ کے ساتھ دوستی کا معاملہ نہیں، بلکہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں میں سے جو بھی یہ کام کرے گا وہ یقینا سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔

➑ اس آیت سے مخلصین پر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کا اظہار بھی ہو رہا ہے کہ اتنی بڑی غلطی کرنے والوں کو يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کے ساتھ خطاب ہو رہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی معصیت اور گناہ کی وجہ سے آدمی کافر نہیں ہوتا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب رضی اللہ عنہ کی غلطی سے درگزر فرمایا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی آدمی کے معاملات میں اس کی سابقہ زندگی کو بھی مدِ نظر رکھا جائے گا۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.