(آیت 9) ➊ وَ الَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ: ” بَوَّأَ يُبَوِّءُ“(تفعیل)جگہ دینا، ٹھکانا دینا،جیسا کہ فرمایا: «وَ لَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ»[ یونس: ۹۳ ]”اور بلاشبہ یقینا ہم نے بنی اسرائیل کو ٹھکانا دیا، باعزت ٹھکانا۔“” تَبَوَّأَ يَتَبَوَّأُ “ کسی جگہ میں ٹھکانا بنانا، مقیم ہونا۔ ” الدَّارَ “ میں الف لام عہد کا ہے، اس گھر میں جہاں مہاجرین ہجرت کر کے پہنچے۔ ”دارِ ہجرت“ مدینہ منورہ کا لقب ہے، امام مالک رحمہ اللہ کو اسی لیے ”إِمَامُ دَارِ الْهِجْرَةِ “ کہا جاتا ہے کہ وہ مدینہ منورہ میں رہتے تھے۔ یعنی اموالِ فے فقراء مہاجرین کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جنھوں نے مہاجرین کے آنے سے پہلے ہی دار ہجرت اور ایمان میں جگہ بنالی تھی، یعنی پہلے ہی مدینہ میں رہتے تھے اور ایمان لے آئے تھے۔ ایمان لانے کے لیے یہاں ایمان میں جگہ اور ٹھکانا بنانے کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یہ استعارہ ہے جس میں ایمان کو ایک مضبوط پناہ گاہ اور ٹھکانے کے ساتھ تشبیہ دی ہے، جس میں وہ پہلے ہی داخل ہو چکے تھے۔ ان لوگوں سے مراد تمام انصار ہیں جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اس وقت ایمان لائے جب کوئی مہاجر مدینہ میں نہیں آیا تھا، یعنی بیعتِ عقبہ اولیٰ والے انصار اور وہ بھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے ایمان لا چکے تھے جب کچھ مہاجرین آچکے تھے اور کچھ آنے والے تھے اور مکہ فتح ہونے تک مسلمان ہونے والے تمام انصار بھی، کیونکہ وہ بھی کئی مہاجرین سے پہلے ایمان لے آئے تھے۔
➋ يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَيْهِمْ: یہ انصار کی دوسری فضیلت ہے کہ وہ ہجرت کر کے اپنے پاس آنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح انصار نے ہجرت کر کے آنے والوں کو گلے لگایا اس کی مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے مہاجرین کو اپنی جائداد، گھر بار، زمینوں اور باغوں میں شریک کر لیا اور اتنے اصرار کے ساتھ ان میں سے ہر ایک کو اپنے گھروں میں ٹھہرانے کی کوشش کی کہ مہاجرین کو قرعہ ڈال کر ان کے گھروں میں تقسیم کیا گیا، جیسا کہ ام علاء انصاریہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا: [ أَنَّهُمُ اقْتَسَمُوا الْمُهَاجِرِيْنَ قُرْعَةً، قَالَتْ فَطَارَ لَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُوْنٍ، وَأَنْزَلْنَاهُ فِيْ أَبْيَاتِنَا ][ بخاري، التعبیر، باب رؤیا النساء: ۷۰۰۳ ]”انصار نے مہاجرین کو قرعہ کے ساتھ تقسیم کیا، ہمارے حصے میں عثمان بن مظعون آئے، تو ہم نے انھیں اپنے گھروں میں ٹھہرا لیا۔“
اس محبت کا ایک مظہر مواخات تھی، جس کی وجہ سے سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو اپنی ساری جائداد اور تمام مکانوں میں سے نصف کی اور دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق کے بعد ان کے نکاح میں دینے کی پیش کش کی، جس پر انھوں نے انھیں برکت کی دعا دی مگر یہ پیش کش قبول نہ کی۔ (دیکھیے بخاری: ۲۰۴۹) انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مہاجرین نے کہا: [ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! مَا رَأَيْنَا مِثْلَ قَوْمٍ قَدِمْنَا عَلَيْهِمْ أَحْسَنَ مُوَاسَاةً فِيْ قَلِيْلٍ، وَلاَ أَحْسَنَ بَذْلاً فِيْ كَثِيْرٍ، لَقَدْ كَفَوْنَا الْمَؤنَةَ، وَأَشْرَكُوْنَا فِي الْمَهْنَأِ، حَتّٰی لَقَدْ حَسِبْنَا أَنْ يَذْهَبُوْا بِالْأَجْرِ كُلِّهِ، قَالَ لاَ، مَا أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِمْ، وَدَعَوْتُمُ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ لَهُمْ ][مسند أحمد: ۳ /۲۰۰، ۲۰۱، ح: ۱۳۰۷۵، قال المحقق إسنادہ صحیح علی شرط الشیخین۔ ترمذي: ۲۴۸۷ ]”اے اللہ کے رسول! ہم نے ان جیسے لوگ نہیں دیکھے جن کے پاس ہم آئے ہیں، جو تھوڑے میں اچھی سے اچھی غم خواری کرتے ہوں اور زیادہ میں بہتر سے بہتر خرچ کرتے ہوں۔ وہ ہماری جگہ خود محنت مشقت کر رہے ہیں اور انھوں نے آمدنی میں ہمیں شریک کر رکھا ہے، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوتاہے کہ سارا اجر وہی لے جائیں گے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” نہیں، جب تک تم ان کی تعریف کرتے رہو گے اور اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے دعا کرتے رہو گے۔“ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلایا تاکہ بحرین کا علاقہ بطور جاگیر ان کے لیے لکھ دیں۔ انھوں نے کہا: ”جب تک ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اتنا ہی نہ دیں ہم نہیں لیں گے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِمَّا لاَ، فَاصْبِرُوْا حَتّٰی تَلْقَوْنِيْ، فَإِنَّهُ سَيُصِيْبُكُمْ بَعْدِيْ أَثَرَةٌ ][ بخاري، مناقب الأنصار، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم للأنصار: ”اصبروا حتٰی تلقوني علی الحوض “: ۳۷۹۴ ]”اگر تم نہیں لیتے تو صبر کرو، یہاں تک کہ مجھ سے آ ملو، کیونکہ میرے بعد تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی۔“ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ”اے اللہ کے رسول! ہمارے کھجوروں کے درخت ہمارے اور ہمارے مہاجر بھائیوں کے درمیان تقسیم کر دیجیے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ تو انصار نے (مہاجرین سے) کہا: ”تم ہماری جگہ محنت کرو گے اور ہم تمھیں پھلوں کی پیداوار میں شریک کر لیں گے۔“ مہاجرین نے کہا: ”ہم نے تمھاری بات سنی اور مان لی۔“[ بخاري، الحرث والمزارعۃ، باب إذا قال اکفني مؤونۃ النخل…: ۲۳۲۵ ]
➌ وَ لَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا: یعنی انصار کے دل میں مہاجرین کی ایسی محبت اور ہمدردی ہے کہ مہاجرین کو کوئی چیز دی جائے تو انصار کے دل میں اپنے لیے اس کی خواہش تک پیدا نہیں ہوتی، اس کا مطالبہ تو بہت دور کی بات ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی چھوڑی ہوئی تمام زمینیں اور باغات مہاجرین کو دے دیے اور انصار نے بخوشی اسے قبول کیا۔
➍ وَ يُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ: ”خَصَّ يَخَصُّ خَصَاصَةً وَخَصَاصًا وَخَصَاصَاءً (ع)“”اِفْتَقَرَ“ محتاج ہونا۔ ” خَصَاصَةٌ “ فقر و فاقہ۔ اپنی ضرورت سے زائد چیز خرچ کرنا بھی اگرچہ خوبی ہے، مگر وہ تھوڑا بہت جو آدمی کے پاس ہو، خود فقرو فاقہ برداشت کرتے ہوئے اسے دوسرے پر خرچ کر دینا بہت ہی اونچی بات ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے پوچھا: ”یا رسول اللہ! کون سا صدقہ سب سے بہتر ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ جُهْدُ الْمُقِلِّ وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُوْلُ ][ أبو داوٗد، الزکاۃ، باب الرخصۃ في ذٰلک: ۱۶۷۷، وقال الألباني صحیح ]”کم مال والے کی کوشش اور ابتدا اس سے کرو جس کی تم پرورش کر رہے ہو۔“
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے پاس پیغام بھیجا، ان کی طرف سے جواب آیا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَنْ يَضُمُّ أَوْ يُضِيْفُ هٰذَا؟ ]”اس مہمان کو اپنے ساتھ کون لے جائے گا؟“ انصار میں سے ایک آدمی نے کہا: ”میں لے جاؤں گا۔“ چنانچہ وہ اسے لے کر اپنی بیوی کے پاس گیا اور اس سے کہا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر تواضع کرو۔“ اس نے کہا: ”ہمارے پاس بچوں کے کھانے کے سوا کچھ نہیں۔“ اس نے کہا: ”کھانا تیار کر لو، چراغ جلا لو اور بچے جب کھانا مانگیں تو انھیں سلا دو۔“ اس نے کھانا تیار کر لیا، چراغ جلا دیا اور بچوں کو سلا دیا۔ پھر وہ اس طرح اٹھی جیسے چراغ درست کرنے لگی ہے اور اس نے چراغ بجھا دیا۔ میاں بیوی دونوں اس کے سامنے یہی ظاہر کرتے رہے کہ وہ کھا رہے ہیں، مگر انھوں نے وہ رات خالی پیٹ گزار دی۔ جب صبح ہوئی اور وہ انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ ضَحِكَ اللّٰهُ اللَّيْلَةَ أَوْ عَجِبَ مِنْ فَعَالِكُمَا ]”آج رات تم دونوں میاں بیوی کے کام پر اللہ تعالیٰ ہنس پڑا یا فرمایا کہ اس نے تعجب کیا۔“ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «وَ يُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَ مَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ» [ الحشر: ۹ ]”اور اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ انھیں سخت حاجت ہو اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔“[ بخاري، مناقب الأنصار، باب قول اللّٰہ عزوجل: «و یؤثرون علی أنفسہم …»: ۳۷۹۸۔ مسلم: ۲۰۵۴ ] صحیح مسلم میں اس انصاری کا نام بھی مذکور ہے کہ وہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ تھے۔
➎ وَ مَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ …: ” يُوْقَ “”وَقٰي يَقِيْ وِقَايَةً“(ض)(بچانا) سے فعل مضارع مجہول ہے، اصل میں ”يُوْقٰي“ تھا، ” مَنْ “ کے جزم دینے کی وجہ سے الف گر گیا۔ راغب نے فرمایا: ”اَلشُّحُّ بُخْلٌ مَعَ حِرْصٍٍٍ وَذٰلِكَ فِيْمَا كَانَتْ عَادَةً۔“”شح“”وہ بخل ہے جس کے ساتھ حرص بھی ہو اور یہ آدمی کی عادت ہو۔“ یعنی ”شح“ یہ نہیں کہ آدمی کسی وقت بخل کر جائے یا حرص سے کام لے لے، بلکہ یہ دونوں چیزیں اس کی عادت ہوں۔ بعض اہلِ علم نے فرمایا کہ ”شح“ یہ ہے کہ جو آدمی کے پاس ہو اس پر بخل کرے اور جو نہیں اس کی حرص رکھے۔ ” وَ مَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ “ سے ظاہر ہے کہ ہر انسان میں یہ عادت پائی جاتی ہے، بچتا وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ بچائے اور جنھیں اس بری خصلت سے بچا لیا جائے وہی کامیاب ہیں۔ آیت میں ”شح “ سے بچنے کی تاکید اور فضیلت کا بیان ہے، پھر جو کوشش کرے اللہ تعالیٰ اسے بچا لیتا ہے، جیسا کہ فرمایا: «وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا وَاِنَّ اللہ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ»[ العنکبوت: ۶۹ ]”اور وہ لوگ جنھوں نے ہمارے بارے میں پوری کوشش کی ہم ضرور ہی انھیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بلاشبہ اللہ یقینا نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ وَمَنْ يَّسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللّٰهُ، وَمَنْ يَّسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللّٰهُ، وَمَنْ يَّتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللّٰهُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَ أَوْ سَعَ مِنَ الصَّبْرِ ][بخاري، الزکاۃ، باب الاستعفاف عن المسئلۃ: ۱۴۶۹ ]”اور جو (سوال سے) بچے گا اللہ تعالیٰ اسے بچالے گا اور جو غنی بننے کی کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اسے غنی بنا دے گا اور جو صبر کی کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر عطا کر دے گا اور کسی شخص کو کوئی ایسا عطیہ نہیں دیا گیا جو صبر سے اچھا اور زیادہ وسیع ہو۔“ اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ اِتَّقُوا الظُّلْمَ فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاتَّقُوا الشُّحَّ فَإِنَّ الشُّحَّ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، حَمَلَهُمْ عَلٰی أَنْ سَفَكُوْا دِمَاءَهُمْ وَاسْتَحَلُّوْا مَحَارِمَهُمْ ][مسلم، البروالصلۃ، باب تحریم الظلم: ۲۵۷۸ ]”ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن بہت سی تاریکیاں ہوگا اور ”شُحَّ“(بخل و حرص) سے بچو، کیونکہ شح نے ان لوگوں کو ہلاک کر دیا جو تم سے پہلے تھے۔ اس نے انھیں اس بات پر ابھارا کہ انھوں نے اپنے خون بہائے اور اپنے اوپر حرام چیزوں کو حلال کر لیا۔“
➏ اس آیت میں انصار کی جو صفات بیان ہوئی ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ انھی کے ساتھ خاص ہیں بلکہ وہ مہاجرین میں بھی بدرجہ اتم موجود تھیں۔ ان کی ہجرت ہی ان تمام صفات کی جامع ہے، کیونکہ آدمی کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ اللہ، اس کے رسول اور ایمان والوں کی محبت اور انھیں اپنے جان و مال پر ترجیح دیے بغیر ہجرت کر سکے۔ پھر ہر موقع پر انصار کی طرح مہاجرین نے بھی جس طرح اپنے مال و جان کو اللہ کی راہ میں قربان کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ جنگ تبوک کے موقع پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ گھر میں جو کچھ تھا سب لے آئے اور عمر رضی اللہ عنہ آدھا سامان لے آئے۔ یہ شح سے محفوظ ہونے اور ایثار کی بلند ترین مثالیں ہیں۔ اسی طرح پہلی آیت میں مہاجرین کے جو اوصاف بیان ہوئے ہیں ان کا یہ مطلب نہیں کہ وہ صرف انھی کے ساتھ خاص ہیں، بلکہ وہ انصار میں بھی موجود تھے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کا ذکر اکٹھا فرمایا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کے دوست اور سچے مومن قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: «اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓىِٕكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ» [ الأنفال: ۷۲ ]”بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنھوں نے جگہ دی اور مدد کی، یہ لوگ! ان کے بعض بعض کے دوست ہیں۔“ اور اس کے بعد فرمایا: «وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا» [ الأنفال: ۷۴ ]”اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنھوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں۔“ غرض مہاجرین و انصار میں سے کوئی بھی فضیلت میں کم نہیں، تاہم مہاجرین کو اپنی ہجرت کی وجہ سے انصار پر ایک قسم کی برتری حاصل ہے، اس لیے ان آیات میں ان کا ذکر پہلے آیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کی غنیمتوں کی تقسیم کے موقع پر انصار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: [ أَتَرْضَوْنَ أَنْ يَّذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالْبَعِيْرِ، وَتَذْهَبُوْنَ بِالنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلٰی رِحَالِكُمْ؟ لَوْلاَ الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنَ الْأَنْصَارِ، وَلَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَشِعْبًا لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ وَشِعْبَهَا، الْأَنْصَارُ شِعَارٌ وَالنَّاسُ دِثَارٌ ][بخاري، المغازي، باب غزوۃ الطائف في شوال سنۃ ثمان: ۴۳۳۰ ]”کیا تم پسند کرتے ہو کہ لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ لے جائیں اور تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھروں کی طرف لے جاؤ؟ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار میں سے ایک آدمی ہوتا اور اگر لوگ کسی وادی اور گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی اور ان کی گھاٹی میں چلوں گا۔ انصار شعار (جسم کے ساتھ ملا ہوا کپڑا) ہیں اور دوسرے لوگ (اوپر لیا جانے والا کپڑا)ہیں۔“