(آیت 3) ➊ وَ لَوْ لَاۤ اَنْ كَتَبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمُ الْجَلَآءَ …: ”جَلَا يَجْلُوْ جَلاَءً“(ن)”اَلرَّجُلَ“ آدمی کو اس کے شہر سے نکال دینا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا ان کے متعلق پہلے سے فیصلہ انھیں جلا وطن کرنے پر اکتفا کا تھا، تاکہ انھیں عبرت ہو اور وہ اپنی اصلاح کر سکیں۔ اگر اس نے پہلے یہ نہ لکھا ہوتا تو انھیں دنیا ہی میں عذاب دیتا، ان کے مرد قتل کیے جاتے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی اور غلام بنا لیا جاتا، جیسے بعد میں بنو قریظہ کو عبرت حاصل نہ کرنے کی وجہ سے عذاب دیا گیا۔ (دیکھیے بخاری: ۴۰۳۲) یہاں ایک سوال ہے کہ جلا وطنی بھی تو عذاب ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ عذاب سے مراد جسمانی سزا ہے، جس کا احساس واضح اور شدید ہوتا ہے۔
➋ وَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابُ النَّارِ: یعنی اگر وہ جلا وطنی کی وجہ سے دنیا کے عذاب، قتل، اسیری اور غلامی سے بچ گئے تو بے فکر نہ ہوں، اگر وہ اسی طرح کفر پر قائم رہے تو ان کے لیے آخرت میں آگ کا عذاب تیار ہے۔