تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

اس سورت کا نام الحشر اس کی دوسری آیت میں مذکور لفظ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ کی وجہ سے ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے سوال ہوا کہ سورۂ حشر کس کے بارے میں نازل ہوئی، تو انھوں نے فرمایا: [ نَزَلَتْ فِيْ بَنِي النَّضِيْرِ ] [ بخاري، التفسیر، سورۃ الحشر: ۴۸۸۲ ] یہ سورت (مشہور یہودی قبیلے) بنو نضیر کے بارے میں اتری۔ صحیح بخاری ہی میں سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنھما کے پاس (اسے) سورۂ حشر کہا تو انھوں نے فرمایا: (اسے) سورۂ نضیر کہو۔ [ بخاري، التفسیر، سورۃ الحشر: ۴۸۸۳ ] ابن عباس رضی اللہ عنھما نے یہ بات یا تو اس لیے فرمائی کہ کوئی شخص لفظ حشر سے یہاں قیامت مراد نہ لے لے، بلکہ یہ بات پیشِ نظر رہے کہ اس میں مرکزی مضمون بنو نضیر کا معاملہ ہے، یا پھر انھوں نے یہ بتانے کے لیے یہ بات کہی کہ اس سورت کا نام سورۂ حشر کے علاوہ سورۂ نضیر بھی ہے۔

(آیت 1) سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ …: اس آیت کی تفسیر سورۂ حدید کی پہلی آیت اور سورۂ بنی اسرائیل کی آیت (۴۴) میں گزر چکی ہے، یہاں صرف چند باتوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو اس مقام سے متعلق ہیں: (1) سورۂ حدید میں مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ہے، جب کہ یہاں مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ ہے۔ ابن عاشور رحمہ اللہ نے اس کی توجیہ یہ فرمائی ہے کہ سورۂ حدید کی ابتدا میں زمین و آسمان کی ہر چیز کے اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرنے کو بطور دلیل بیان کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کی توحید اور ان صفات کے ثبوت کے لیے جو بعد کی آیات میں بیان ہوئی ہیں۔ چونکہ وہ سب کچھ جو زمین و آسمان میں پایا جاتا ہے مجموعی طور پر اس کی دلیل ہے، اس لیے مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ میں اسے اکٹھا کر دیا ہے۔ جب کہ سورۂ حشر کی ابتدا میں اللہ کی تسبیح کا ذکر مسلمانوں پر اس احسان کی یاد دلانے کے لیے ہے جو زمین پر پیش آنے والے ایک واقعہ کی صورت میں ہوا اور وہ ہے بنو نضیر کی جلا وطنی اور مسلمانوں کا ان کی اراضی اور اموال کا مالک بن جانا۔ اس لیے اس میں زمین والوں کو خاص طور پر الگ ذکر کرنے کے لیے مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ فرمایا۔ یہی معاملہ سورۂ صف، سورۂ جمعہ اور سورۂ تغابن کا ہے، ان سب میں مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ کے بجائے مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ کہا گیا ہے، کیونکہ ان کے بعد مذکور چیزوں کا تعلق خاص طور پر زمین والوں کے ساتھ ہے۔

(2) بنو نضیر کے واقعہ کے ذکر سے پہلے سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ لانے کا مقصد یہ ہے کہ اس جیسے طاقتور قبیلے کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا وہ مسلمانوں کی طاقت کا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ تھا، جو ہر عیب اور عجز سے پاک ہے۔ یہ کام جو مسلمانوں کی تعداد اور قوت کے لحاظ سے ممکن ہی نہ تھا، اللہ تعالیٰ کے لیے بالکل معمولی ہے، کیونکہ وہ سبحان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ لانے میں بھی یہی حکمت ہے کہ جب وہ کسی کو غالب کرنا چاہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا اور اس واقعہ میں بھی اس کی بے شمار حکمتیں ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں مسلمانوں کے لیے سبق بھی ہے کہ جب آسمانوں کی ہر چیز اور زمین کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے تو تمھیں بھی اس کی بے شمار نعمتوں پر، جن میں بنو نضیر کی جلاوطنی کی نعمت بھی ہے اس کی تسبیح کرنی چاہیے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.