تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 14) اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ: اس آیت میں منافقین کے تین اوصاف بیان کرتے ہوئے ان کی حالت پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہے، ان میں سے پہلا وصف یہ ہے کہ ایمان کے دعوے کے باوجود ان کی دوستی ان لوگوں کے ساتھ ہے جو ایمان والوں کے بد ترین دشمن ہیں اور جن پر اللہ کا غضب ہوا ہے۔ اگرچہ تمام کفار ہی پر اللہ کا غضب ہے اور منافقین تمام کفار سے دوستی کرتے تھے، مگر مَغْضُوْبٌ عَلَيْهِمْ خاص طور پر یہود کا لقب ہے، جیسا کہ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (۶۱،۹۰)، آل عمران (۱۱۲)، اعراف (۱۵۲)، مائدہ (۶۰) اور سورۂ ممتحنہ (۱۳) حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو یہود و نصاریٰ اور کفار کی دوستی سے صریح الفاظ میں منع فرمایا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ آل عمران (۲۸)، نساء (۱۴۴)، مائدہ (۵۱)اور سورہ توبہ (۲۳)۔

مَا هُمْ مِّنْكُمْ وَ لَا مِنْهُمْ: یہ منافقین کا دوسرا وصف ہے کہ بظاہر مسلمان ہونے کے باوجود فی الواقع وہ تم میں سے نہیں ہیں، کیونکہ اگر وہ حقیقی مومن ہوتے تو کفار کو کبھی دوست نہ بناتے۔ (دیکھیے مائدہ: ۸۱) اور اسی طرح وہ یہود میں سے بھی نہیں، کیونکہ وہ انھیں بھی حق پر نہیں سمجھتے، ان کی دوستی محض غرض کی دوستی ہے کہ اگر مسلمانوں پر کوئی گردش آئی تو ان کی دوستی کام آئے گی۔ دیکھیے سورۂ نساء (143،142) کی تفسیر۔

وَ يَحْلِفُوْنَ عَلَى الْكَذِبِ وَ هُمْ يَعْلَمُوْنَ: یعنی یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں جھوٹ بولتے ہیں اور اس پر قسمیں بھی کھاتے ہیں۔ اس جھوٹ سے مراد ایک تو مومن ہونے کا دعویٰ ہے۔ (دیکھیے منافقون: ۱۔ توبہ: ۵۶) پھر مختلف اوقات میں اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے خلاف ان کے کسی قول یا فعل پر جب گرفت کی جاتی تو وہ جھوٹ بول دیتے کہ ہم نے یہ بات نہیں کہی، نہ یہ کام کیا ہے اور اس پر قسمیں کھا جاتے۔ (دیکھیے توبہ: ۶۲، ۷۴، 96،95۔ منافقون: 7،6) سیرت کی کتابوں میں ایسے بہت سے واقعات مذکور ہیں۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.