(آیت 2) ➊ اَلَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِنْكُمْ مِّنْ نِّسَآىِٕهِمْ مَّا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمْ …: ” يُظٰهِرُوْنَ “”ظَهْرٌ“ سے نکلا ہے جس کا معنی ”پیٹھ “ ہے۔ عرب سواری کو ”ظَهْرٌ“ کہتے ہیں۔ یہ استعارہ ہے، جس میں بیوی سے جماع کو گھوڑے وغیرہ کی پشت پر سوار ہونے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ ”أَنْتِ عَلَيَّ كَظَهْرِ أُمِّيْ“(تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح میرے لیے اپنی ماں پر سوار ہونا اور اس سے جماع حرام ہے، اسی طرح تم بھی میرے لیے میری ماں کی طرح ہو۔ جاہلیت میں لوگ بیوی کو ماں کہہ دیتے تو اسے ماں کی طرح حرام قرار دے لیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس رسمِ بد کو ختم کر دیا، فرمایا منہ کے ساتھ بیوی کو ماں کہنے سے وہ ماں نہیں بن جاتی، آدمی کی ماں وہی ہے جس نے اسے جنم دیا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ احزاب (۴) کی تفسیر۔
➋ وَ اِنَّهُمْ لَيَقُوْلُوْنَ مُنْكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَ زُوْرًا: ” مُنْكَرًا “”أَنْكَرَ يُنْكِرُ“(افعال) سے اسم مفعول ہے، وہ بات جسے انسانی طبیعت یا عقل یا شرع نہ پہچانتی ہو بلکہ اس کا انکار کرتی ہو۔ ” زُوْرًا “ جھوٹ۔ یعنی بیوی کو ماں کی طرح کہنے والے ایسی بات کہتے ہیں جو نہ انسانی طبیعت مانتی ہے، نہ عقل اور نہ ہی شرع، کیونکہ ماں کے ساتھ بیٹے کا رشتہ اکرام و احترام کا ہے، جبکہ بیوی کے ساتھ خاوند کا رشتہ ایک خاص تعلق کا ہے جو ماں کے ساتھ سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ پھر جس عورت نے آدمی کو جنم ہی نہیں دیا بلکہ اس کا اس کے ساتھ مباشرت کا تعلق رہا، اسے ماں کہنا بری بات اور کتنا بڑا جھوٹ ہے۔
➌ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ: یعنی اللہ تعالیٰ تمھاری کوتاہیوں اور غلطیوں کے باوجود ان سے بہت درگزر کرنے والا اور ان پر پردہ ڈالنے والا ہے۔ خصوصاً جب غلطی کرنے والا پلٹ آئے اور توبہ کر کے آئندہ ایسی باتوں سے باز رہے۔
➍ اس آیت میں کئی چیزیں ظہار کے حرام ہونے پر دلالت کر رہی ہیں، پہلی اللہ تعالیٰ کا یہ کہنا کہ ” مَا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمْ “(وہ ان کی مائیں نہیں)، اس میں ظہار کرنے والے کو جھوٹا قرار دیا ہے، دوسری اور تیسری یہ کہ اللہ نے ان کا نام منکراور زُور رکھا ہے اور چوتھی اللہ تعالیٰ کا فرمان ” اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ “ ہے، کیونکہ عفو و مغفرت گناہ ہی سے ہوتی ہے۔