(آیت 1) ➊ قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا: یہ آیات خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنھا کے بارے میں اتریں۔ بعض روایات میں ان کا نام خویلہ اور بعض میں جمیلہ آیا ہے۔ ان کے خاوند اوس بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ تھے جو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے، بوڑھے تھے اور خولہ کے ان سے بچے بھی تھے۔ انھوں نے کسی بات پر ناراض ہو کر ان سے ظہار کر لیا، یعنی یہ کہہ دیا: ”أَنْتِ عَلَيَّ كَظَهْرِ أُمِّيْ“”تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔“ جاہلیت میں جو شخص بیوی سے ظہار کرتا وہ اسے ماں ہی کی طرح ہمیشہ کے لیے حرام سمجھ لیتا تھا۔ خولہ کے سامنے تو دنیا اندھیر ہو گئی، اس عمر میں کہاں رہوں گی، بچوں کا کیا کروں گی؟ باپ کے پاس رہے تو ضائع ہو جائیں گے، میرے پاس رہے تو انھیں کہاں سے کھلاؤں گی؟ وہ یہ شکایت لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں۔ سنن ابو داؤد میں ہے کہ خویلہ بنت مالک بن ثعلبہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ میرے خاوند اوس بن صامت رضی اللہ عنہ نے مجھ سے ظہار کر لیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کرتی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے تھے اور فرماتے تھے: [ اِتَّقِي اللّٰهَ فَإِنَّهُ ابْنُ عَمِّكِ ]”اس کے بارے میں اللہ سے ڈر، کیونکہ وہ تمھارا چچا زاد ہے۔“ مگر میں نہیں ٹلی، حتیٰ کہ ” قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا “ سے لے کر کفارہ کے فرض کے بیان تک قرآن نازل ہوا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ يَعْتِقُ رَقَبَةً ]”وہ ایک گردن آزاد کرے۔“ اس نے کہا: ”وہ تو اس کے پاس ہے نہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ فَيَصُوْمُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ ]”پھر دو ماہ پے در پے روزے رکھے۔“ اس نے کہا: ”اے اللہ کے رسول! وہ بڑا بوڑھا ہے، روزے رکھ نہیں سکتا۔“ فرمایا: [ فَلْيُطْعِمْ سِتِّيْنَ مِسْكِيْنًا ]”پھر ساٹھ (۶۰) مسکینوں کو کھانا کھلائے۔“ اس نے کہا: ”اس کے پاس کوئی چیز نہیں جس کا صدقہ کرے۔“ کہتی ہیں کہ اس وقت کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا، میں نے کہا: ”یا رسول اللہ! میں ایک اور ٹوکرے کے ساتھ اس کی مدد کر دیتی ہوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ قَدْ أَحْسَنْتِ اِذْهَبِيْ فَأَطْعِمِيْ بِهَا عَنْهُ سِتِّيْنَ مِسْكِيْنًا وَارْجِعِيْ إِلٰی ابْنِ عَمِّكِ ][ أبو داوٗد، الطلاق، باب في الظہار:۲۲۱۴، وقال الألباني حسن ]”تم نے بہت اچھا کیا، جاؤ اس کی طرف سے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ اور اپنے چچا زاد کے پاس واپس چلی جاؤ۔“
➋ قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ: حرف ” قَدْ “ تحقیق کے لیے آتا ہے اور اس کام کے واقع ہونے کے لیے بھی جس کی توقع کی جا رہی ہو۔ یہاں پہلے معنی کا تو محل نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سننے میں کسی کو شک نہیں کہ اس کا یقین دلانے کے لیے حرف تحقیق لایا جائے، تو مطلب یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جھگڑا کرنے والی عورت اپنی فریاد سنے جانے کی جو توقع کر رہی تھی اللہ تعالیٰ نے پوری فرما دی۔ سننے سے مراد یہاں صرف سن لینا ہی نہیں بلکہ سننا اور سن کر مراد پوری کرنا ہے، جیسے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دعا سن لی، یعنی سن کر قبول فرمائی۔
➌ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا: وہ جھگڑا یہی تھا کہ وہ کہتی تھی میرے بارے میں کوئی گنجائش نکالیں، میرے خاوند نے مجھے طلاق نہیں دی، صرف ”أَنْتِ عَلَيَّ كَظَهْرِ أُمِّيْ“ کہا ہے۔ اب میں بڑھاپے میں کہاں جاؤں اور بچوں کا کیا کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی واضح حکم نہ ہونے کی وجہ سے انھیں اکٹھے رہنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔
➍ وَ تَشْتَكِيْۤ اِلَى اللّٰهِ: ” شَكَا يَشْكُوْ شَكْوًي وَشِكَايَةً “ اپنے دکھ تکلیف کا اظہار کرنا۔ ” تَشْتَكِيْۤ “(افتعال) میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے معنی میں مبالغہ ہے، یعنی وہ جھگڑنے والی اللہ تعالیٰ کی جناب میں بہت شکایت کر رہی تھی اور اپنے دکھ درد کا شدت سے اظہار کر رہی تھی۔
➎ وَ اللّٰهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ: ” اِنَّ “ تعلیل کے لیے ہوتا ہے۔ اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا، کیونکہ اللہ تو سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ ”سمع“(سننا) وہ صفت ہے جس کے ساتھ آوازوں کا علم ہوتا ہے اور ” بصر“(دیکھنا) وہ صفت ہے جس کے ساتھ نظر آنے والی چیزوں کا علم ہوتا ہے۔ یونان کے مشرک فلاسفہ سے متاثر ہو کر بعض مسلم متکلمین نے ان کا یہ قاعدہ مان لیا کہ محل حوادث حادث ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کو سمیع و بصیر ماننا ممکن نہ رہا، کیونکہ اگر مانا جائے کہ اللہ تعالیٰ تمام آوازوں کو سنتا ہے اور تمام چیزوں کو دیکھتا ہے تو سنائی دینے والی اور نظر آنے والی چیزیں تو حادث ہیں، نئی سے نئی وجود میں آتی ہیں، اگر اللہ تعالیٰ سنتا اور دیکھتا ہو تو وہ محل حوادث ہوگا اور ان کے قاعدے کے مطابق خود بھی حادث ہو گا، ہمیشہ سے اور قدیم نہیں ہوگا، اس لیے انھوں نے اللہ تعالیٰ کے سننے، دیکھنے، کلام کرنے اور ایسی تمام صفات کا یا تو انکار کر دیا جن میں حدوث پایا جاتا ہے یا ان کی ایسی تاویل کردی جو درحقیقت انکار ہی ہے۔ اکثر مفسرین نے یہی روش اختیار کی ہے۔ تفسیر جلالین کو دیکھ لیجیے، وہ لکھتے ہیں: ” اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ “ عَالِمٌ “ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ سننا، دیکھنا اور جاننا تینوں الگ الگ صفات ہیں، صرف عالم مان لینے سے سمیع و بصیر نہیں مانا جا سکتا اور یہ قاعدہ کہ ”محل حوادث حادث ہوتا ہے“ قرآن مجید کے صریح الفاظ سے ٹکراتا ہے، اس لیے غلط ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ رحمن کی آیت (۲۹): «كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ» کی تفسیر۔ اگر کوئی کہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو سمیع و بصیر مانیں تو وہ بندوں کی مثل ٹھہرتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ”عليم“ ماننے سے وہ بندوں جیسا نہیں ٹھہرتا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ”علیم “ کا لفظ بندوں پر بھی بولا ہے: «اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ»[ الحجر: ۵۳ ](بے شک ہم تجھے ایک علیم لڑکے کی خوش خبری دیتے ہیں) تو سمیع و بصیر ماننے سے بندوں کی مثل کیسے بن جائے گا؟ مزید دیکھیے سورۂ شوریٰ کی آیت (۱۱): «لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ» کی تفسیر۔
➏ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا: [ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَسِعَ سَمْعُهُ الْأَصْوَاتَ، لَقَدْ جَاءَتِ الْمُجَادِلَةُ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ أَنَا فِيْ نَاحِيَةِ الْبَيْتِ، تَشْكُوْ زَوْجَهَا وَمَا أَسْمَعُ مَا تَقُوْلُ فَأَنْزَلَ اللّٰهُ: «قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا» ][ ابن ماجہ، المقدمۃ، باب فیما أنکرت الجھمیۃ: ۱۸۸ ]”سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی سماعت تمام آوازوں پر وسیع ہے، وہ جھگڑنے والی عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی جب کہ میں گھر کے ایک طرف موجود تھی، وہ اپنے خاوند کی شکایت کر رہی تھی اور میں وہ نہیں سنتی تھی جو وہ کہہ رہی تھی، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: «قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا» ”یقینا اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑ رہی تھی۔“ اس حدیث سے ظاہر ہے کہ صحابہ کرام اللہ تعالیٰ کے سننے کا کیا مطلب سمجھتے تھے۔ اس لیے امام ابن ماجہ نے اپنی سنن کے شروع ہی میں یہ حدیث اس باب میں ذکر فرمائی ہے جس کا عنوان ہے: ” بَابٌ فِيْمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ“”یہ باب ان چیزوں کو ثابت کرنے کے لیے ہے جن کا جہمیہ نے انکار کیا ہے۔“ اور امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری کی ” كِتَابُ التَّوْحِيْدِ“ کے ”بَابُ قَوْلِ اللّٰهِ تَعْالٰي: «وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا» “ کے تحت اسے اللہ تعالیٰ کی صفت سمع و بصر ثابت کرنے کے لیے ذکر فرمایا ہے۔