(آیت 28) ➊ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ …: مفسرین نے اس آیت کی تفسیر دو طرح سے کی ہے، ایک یہ کہ ” يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا “ کے الفاظ کے مخاطب اہلِ کتاب ہیں جو اس سے پہلے اپنے نبی پر ایمان کا دعویٰ رکھتے تھے، انھیں حکم دیا جا رہا ہے کہ اللہ سے ڈر جاؤ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آؤ، تو اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی رحمت سے دوہرا حصہ عطا فرمائے گا۔ اس کی تائید سورۂ قصص کی آیات (۵۲ تا ۵۴) سے ہوتی ہے اور اس حدیث سے بھی جو ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ ثَلاَثَةٌ لَهُمْ أَجْرَانِ رَجُلٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ، وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْعَبْدُ الْمَمْلُوْكُ إِذَا أَدّٰی حَقَّ اللّٰهِ وَحَقَّ مَوَالِيْهِ، وَ رَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَهُ أَمَةٌ يَطَؤُهَا فَأَدَّبَهَا، فَأَحْسَنَ تَأْدِيْبَهَا وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيْمَهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ ][ بخاري، العلم، باب تعلیم الرجل أمتہ وأہلہ: ۹۷ ]”تین آدمی ایسے ہیں کہ ان کے لیے دو اجر ہیں، ایک اہلِ کتاب میں سے کوئی آدمی جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور ایک وہ غلام جو کسی کی ملکیت میں ہو، جب وہ اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے مالکوں کا حق ادا کرے اور ایک وہ آدمی جس کے پاس ایک لونڈی تھی، وہ اس سے صحبت کرتا تھا، تو اس نے اسے ادب سکھایا اور اچھی طرح ادب سکھایا اور اسے تعلیم دی اور اچھی طرح تعلیم دی، پھر اسے آزاد کر دیا اور اس سے نکاح کر لیا، تو اس کے لیے بھی دو اجر ہیں۔“
اس تفسیر میں جو بات بیان ہوئی ہے وہ اپنی جگہ درست ہے، مگر یہاں ” يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا “ سے اہلِ کتاب میں سے مسلمان ہونے والے مراد لینا سیاق کے خلاف ہے، کیونکہ شروع سے آخر تک خطاب ان لوگوں سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، انھی کو اپنے ایمان میں اخلاص پیدا کرنے اور اللہ کی راہ میں قتال اور خرچ کا حکم آرہا ہے۔ اس آیت میں بھی انھیں اللہ سے ڈرنے اور اس کے رسول پر کما حقہ ایمان لانے کا حکم اور اس کی جزا کے طور پر اپنی نعمت کا دوہرا حصہ اور نور عظیم عطا کرنے کی بشارت کا ذکر ہے۔ اس لیے صحیح تفسیر ان حضرات کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ” يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا “ کے ساتھ خطاب ان لوگوں سے ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، خواہ وہ اہلِ کتاب میں سے اسلام لائے ہوں یا مشرکین میں سے، یا پیدا ہی اسلام میں ہوئے ہوں، ان سب سے کہا جا رہا ہے کہ صرف زبان سے ایمان کے اقرار اور دعویٰ پر اکتفا نہ کرو، بلکہ سچے دل کے ساتھ ایمان لاؤ، اس کا حق ادا کرو اور اس کے تقاضے پورے کرو، تو اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ عطا کرے گا۔
اس دوہرے حصے سے مراد ہماری اس امت کی خصوصیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے محض اپنے فضل سے پہلی امتوں کی بہ نسبت دوہرے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ایک مثال کے ساتھ واضح فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَثَلُكُمْ وَمَثَلُ أَهْلِ الْكِتَابَيْنِ كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَأْجَرَ أُجَرَاءَ، فَقَالَ مَنْ يَّعْمَلُ لِيْ مِنْ غُدْوَةَ إِلٰی نِصْفِ النَّهَارِ عَلٰی قِيْرَاطٍ؟ فَعَمِلَتِ الْيَهُوْدُ، ثُمَّ قَالَ مَنْ يَعْمَلُ لِيْ مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ إِلٰی صَلاَةِ الْعَصْرِ عَلٰی قِيْرَاطٍ؟ فَعَمِلَتِ النَّصَارٰی، ثُمَّ قَالَ مَنْ يَّعْمَلُ لِيْ مِنَ الْعَصْرِ إِلَی أَنْ تَغِيْبَ الشَّمْسُ عَلٰی قِيْرَاطَيْنِ؟ فَأَنْتُمْ هُمْ، فَغَضِبَتِ الْيَهُوْدُ وَالنَّصَارٰی، فَقَالُوْا مَا لَنَا أَكْثَرَ عَمَلاً، وَأَقَلَّ عَطَاءً؟ قَالَ هَلْ نَقَصْتُكُمْ مِنْ حَقِّكُمْ؟ قَالُوْا لاَ قَالَ فَذٰلِكَ فَضْلِيْ أُوْتِيْهِ مَنْ أَشَاءُ ][بخاري، الإجارۃ، باب الإجارۃ إلٰی نصف النہار: ۲۲۶۸، ۳۴۵۹، عن ابن عمر رضی اللہ عنھما ]”تمھاری مثال اور دونوں کتابوں (تورات و انجیل) والوں کی مثال اس آدمی کی مثال کی طرح ہے جس نے کئی مزدوروں کو اجرت پر رکھا اور کہا: ”کون ہے جو میرے لیے صبح سے نصف النہار تک ایک قیراط پر کام کرے گا؟“ تو یہود نے کام کیا۔ پھر اس نے کہا: ”کون ہے جو میرے لیے نصف النہار سے عصر تک ایک قیراط پر کام کرے گا؟“ تو نصاریٰ نے کام کیا۔ پھر اس نے کہا: ”کون ہے جو میرے لیے عصر سے سورج غروب ہونے تک دو قیراط پر کام کرے گا۔“ تو تم وہ لوگ ہو۔ اس پر یہود و نصاریٰ ناراض ہو گئے اور کہنے لگے: ”ہمیں کیا ہے کہ ہم نے کام زیادہ کیا اور اجرت کم ملی؟“ اس نے کہا: ”کیا میں نے تمھارے حق میں کوئی کمی کی ہے؟“ انھوں نے کہا: ”نہیں!“ اس نے کہا: ”پھر یہ میرا فضل ہے، جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں۔“
➋ وَ يَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ …: یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی بدولت اللہ تعالیٰ تمھیں کتاب و سنت کی صورت میں وحیٔ الٰہی کا ایسا عظیم نور عطا کرے گا جس کے ذریعے سے تم دنیا و آخرت میں ہر جگہ آسانی کے ساتھ چلتے رہو گے، کسی مسئلے میں تمھیں کوئی الجھن یا اندھیرا پیش نہیں آئے گا، جیسا کہ فرمایا: «اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ»[ البقرۃ: ۲۵۷ ]”اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے، وہ انھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔“ اور قیامت کے دن کے اندھیروں میں وہ نور عطا کرے گا جس میں چلتے ہوئے تم جنت تک پہنچ جاؤ گے، جس کا ذکر اس سے پہلے ” يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ “ میں گزرچکا ہے اور تمھیں بخش دے گا اور اللہ غفور و رحیم ہے۔