(آیت 12)يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ …: یعنی قیامت کے دن جب سورج لپیٹ دیا جائے گا (دیکھیے تکویر: ۱) اور چاند بے نور ہو جائے گا (دیکھیے قیامہ: ۸) اور ستارے بکھر کر گر جائیں گے (دیکھیے انفطار: ۲) تواس وقت سب لوگ سخت اندھیرے میں ہوں گے، جہنم کے اوپر صراط (پل) رکھا جائے گا جس پر سے ہر ایک کو گزرنا ہو گا، جیسا کہ فرمایا: «وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا»[ مریم: ۷۱ ]”اور تم میں سے جو بھی ہے اس پر وارد ہونے والا ہے۔ یہ ہمیشہ سے تیرے رب کے ذمے قطعی بات ہے، جس کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔“ وہاں روشنی صرف ایمان اور عمل صالح کی ہوگی، جتنا ایمان کامل ہوگا اتنی ہی روشنی تیز ہوگی۔ کافر اور منافق دنیا میں گمراہی کے اندھیرے میں رہے تو وہاں بھی وہ اندھیرے میں ہوں گے۔ مومن مردوں اور عورتوں کی روشنی ان کے ایمان و عمل کے مراتب کے مطابق ان کے آگے اور دائیں جانب دوڑ رہی ہوگی اور وہاں انھیں یہ کہہ کر جنت کی بشارت دی جائے گی: «بُشْرٰىكُمُ الْيَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ»[ الحدید: ۱۲ ]”آج تمھیں ایسے باغوں کی خوش خبری ہے جن کے تلے نہریں چلتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے ہو، یہی تو بہت بڑی کامیابی ہے۔“