(آیت 14،13)ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ (13) وَ قَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ: ” ثُلَّةٌ “ پر تنوین تعظیم کے لیے ہے، ایک بڑی جماعت۔ اللہ تعالیٰ نے سابقون کے متعلق ” ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ (13) وَ قَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ “ اور اصحاب الیمین کے متعلق ” ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ (39) وَ ثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ “ فرمایا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں جگہ ” الْاَوَّلِيْنَ “ اور ” الْاٰخِرِيْنَ “ سے مراد کیا ہے؟ تو اس کے متعلق اہلِ علم کے دو قول ہیں، ایک یہ کہ ” الْاَوَّلِيْنَ “ سے مراد پہلی امتیں ہیں اور ” الْاٰخِرِيْنَ “ سے مراد ہماری امت ہے۔ انھیں ” الْاٰخِرِيْنَ “ اس لیے کہا گیا کہ وہ تمام امتوںمیں سے آخری امت ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ سابقون پہلی امتوں میں سے ایک بڑی جماعت ہیں اور آخری امت میں سے قلیل ہیں۔ طبری نے تفسیر میں یہی قول ذکر فرمایا ہے، کوئی اور قول ذکر ہی نہیں کیا اور راجح قول بھی یہی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک مشہور قول کے مطابق ایک لاکھ سے زیادہ تو انبیاء ہی گزرے ہیں، انبیاء سمیت ان کی امتوں کے سابقون یقینا بہت بڑی جماعت ہوں گے، ان کی نسبت سے ہماری امت کے سابقون کی تعداد کم ہو گی۔ ہاں اصحاب الیمین جس طرح پہلی امتوں کے بہت بڑی جماعت ہوں گے ہماری امت کے بھی بہت بڑی جماعت ہوں گے، حتیٰ کہ ہماری امت کے افراد اہلِ جنت کا نصف ہوں گے، جیسا کہ ”ثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ “ کی تفسیر میں احادیث آ رہی ہیں۔
اس قول کے راجح ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اس سورت میں قیامت کا ذکر ہو رہا ہے اور اس دن یہ تین گروہ صرف ہماری امت کے نہیں ہوں گے بلکہ آدم علیہ السلام سے لے کر آخری ابن آدم تک سب لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہوں گے۔ اس اعتبار سے بھی اوّلین سے مراد پہلی امتیں ہیں اور آخرین سے مراد امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لوگ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے بھی اس قول کی تائید ہوتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بَيْدَ أَنَّهُمْ أُوْتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا، ثُمَّ هٰذَا يَوْمُهُمُ الَّذِيْ فُرِضَ عَلَيْهِمْ فَاخْتَلَفُوْا فِيْهِ، فَهَدَانَا اللّٰهُ، فَالنَّاسُ لَنَا فِيْهِ تَبَعٌ، الْيَهُوْدُ غَدًا وَالنَّصَارٰی بَعْدَ غَدٍ ][ بخاري، الجمعۃ، باب فرض الجمعۃ…: ۸۷۶، عن أبي ہریرۃ رضی اللہ عنہ ]”ہم آخر میں آنے والے ہیں، قیامت کے دن پہلے ہوں گے۔ اس لیے کہ ان لوگوں کو ہم سے پہلے کتاب دی گئی، پھر یہ (جمعہ کا) دن جو ان پر فرض کیا گیا تو انھوں نے اس میں اختلاف کیا، تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت دی۔ چنانچہ لوگ اس میں ہمارے پیچھے ہیں، یہود اگلے دن اور نصاریٰ اس سے اگلے دن۔“
دوسرا قول جسے ابنِ کثیر نے ترجیح دی ہے، یہ ہے کہ دونوں جگہ اوّلین اور آخرین سے مراد امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوّلین و آخرین ہیں اور مطلب یہ ہے کہ سابقون اس امت کے شروع کے لوگوں میں سے ایک بہت بڑی جماعت ہوں گے اوربعد کے لوگوں میں سے کم تعداد میں ہوں گے۔ البتہ اصحاب الیمین امت کے شروع کے لوگوں میں سے بہت بڑی جماعت ہوں گے اور آخر حصے کے لوگوں سے بھی بہت بڑی جماعت ہوں گے۔ شروع کے لوگوں سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور ان سے قریب زمانوں کے لوگ ہیں۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِيْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ يَجِيْءُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِيْنَهُ وَيَمِيْنُهُ شَهَادَتَهُ ][ بخاري، فضائل الصحابۃ، باب فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم …: ۳۶۵۱ ]”سب لوگوں سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر وہ لوگ جو ان سے ملیں گے، پھر وہ لوگ جو ان سے ملیں گے، پھر کچھ لوگ آئیں گے جن کی شہادت ان کی قسم سے پہلے اور ان کی قسم ان کی شہادت سے پہلے ہو گی۔“ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ایک تیسرا قول ذکر فرمایا ہے کہ ہر امت کے ابتدائی لوگوں میں سابقون کی ایک بڑی جماعت ہوئی ہے جب کہ بعد کے لوگوں میں وہ قلیل ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان تینوں اقوال میں کوئی تعارض نہیں، اپنی اپنی جگہ تینوں درست ہیں، البتہ آیات کے سیاق کے مطابق یہاں پہلا معنی راجح معلوم ہوتا ہے۔(واللہ اعلم)