عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: [ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! قَدْ شِبْتَ، قَالَ شَيَّبَتْنِيْ هُوْدٌ وَالْوَاقِعَةُ وَالْمُرْسَلاَتُ وَ «عَمَّ يَتَسَآءَلُوْنَ» وَ «اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ» ][ ترمذي، التفسیر، باب و من سورۃ الواقعۃ: ۳۲۹۷۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ: ۹۵۵ ]”یا رسول اللہ! آپ بوڑھے ہو گئے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ہود، واقعہ، مرسلات، نبا اور تکویر نے بوڑھا کر دیا۔“
بہت سے لوگ روزانہ سورۂ واقعہ کی تلاوت اس حدیث کی وجہ سے کرتے ہیں جو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَنْ قَرَأَ سُوْرَةَ الْوَاقِعَةِ كُلَّ لَيْلَةٍ لَمْ تُصِبْهُ فَاقَةٌ أَبَدًا ]”جو شخص ہر رات سورۂ واقعہ پڑھے اسے کبھی فاقہ نہیں آئے گا۔“ مگر ایسی کوئی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے ”سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ (ح: ۲۸۹ تا ۲۹۱)“ میں ایسی تمام روایات کا ضعف بیان فرمایا ہے۔
(آیت 1) اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ: ” الْوَاقِعَةُ “ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے، جیسے ” الطَّاۤمَّةُ، الْاٰزِفَةِ، الصَّاخَّةُ “ اور ” الْقَارِعَةُ “ اس کے نام ہیں۔ ان میں ”تاء“ مبالغہ کے لیے ہے۔ اس کا نام ” الْوَاقِعَةُ “ اس کے یقینی ہونے کی وجہ سے رکھا گیا ہے، کیونکہ وہ ہر حال میں ہو کر رہنے والی ہے۔ یعنی جب قیامت قائم ہو گی، جیسا کہ سورۂ حاقہ میں ہے: «فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌ (13) وَّ حُمِلَتِ الْاَرْضُ وَ الْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً (14) فَيَوْمَىِٕذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَةُ» [ الحاقۃ: ۱۳ تا ۱۵ ]”پس جب صور میں پھونکا جائے گا، ایک بار پھونکنا۔ اور زمین اور پہاڑوں کو اٹھایا جائے گا، پس دونوں ٹکرا دیے جائیں گے، ایک بار ٹکرا دینا۔ تو اس دن ہونے والی ہو جائے گی۔“