موسیٰ علیہ السلام کے اور فرعون کے درمیان جو گفتگو ہوئی، اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اللہ کے کلیم علیہ السلام نے فرمایا کہ اے فرعون! میں رب العالمین کا رسول ہوں جو تمام عالم کا خالق و مالک ہے۔ مجھے یہی لائق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارہ میں وہی باتیں کہوں جو سراسر حق ہوں «ب» اور «علی» یہ متعاقب ہوا کرتے ہیں۔ جیسے «رَمَیْتَ بِالْقَوْسِ» اور «رَمَیْتَ علی الْقَوْسِ» وغیرہ۔
اور بعض مفسرین کہتے ہیں: «حَقِیْقٌ» کے معنی «حَرِیْصٌ» کے ہیں۔
یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ مجھ پر واجب اور حق ہے کہ اللہ ذوالمنن کا نام لے کر وہی خبر دوں جو حق و صداقت والی ہو کیونکہ میں اللہ عزوجل کی عظمت سے واقف ہوں، میں اپنی صداقت پر الٰہی دلیل بھی ساتھ ہی لایا ہوں۔ تو قوم بنی اسرائیل کو اپنے مظام سے آزاد کر دے، انہیں اپنی زبردستی کی غلامی سے نکال دے، انہیں ان کے رب کی عبادت کرنے دے۔ یہ ایک زبردست بزرگ پیغمبر کی نسل سے ہیں یعنی یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم خلیل اللہ علیہم السلام کی اولاد ہیں۔
فرعون نے کہا: میں تجھے سچا نہیں سمجھتا، نہ تیری طلب پوری کروں گا اور اگر تو اپنے دعوے میں واقعی سچا ہے تو کوئی معجزہ پیش کر۔