(آیت 37)فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ …: ” وَرْدَةً “ گلاب کے پھول کی طرح گلابی۔”اَلدِّهَانُ“ میں علماء کے دو قول ہیں، ایک سرخ چمڑا اور دوسرا ”تیل “جو ملا جاتا ہے۔ اس معنی میں بعض کہتے ہیں: ”اَلدِّهَانُ“”دُهْنٌ“ کی جمع ہے اور بعض کہتے ہیں مفرد ہے۔ تیل کو ” دُهْنٌ“ بھی کہتے ہیں اور ”دِهَانٌ“ بھی۔ ” فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ “ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ حاقہ (۱۶)، فرقان (۲۵) اور سورۂ انشقاق(2،1)۔
اگر ”اَلدِّهَانُ“ کا معنی سرخ چمڑا کریں تو اس وقت آیت میں آسمان کے ایک وصف کا بیان ہے کہ آسمان جو آج نیلگوں ہے اس وقت سرخ چمڑے کی طرح لال گلابی ہو جائے گا اور اگر ”اَلدِّهَانُ“ کا معنی تیل کیا جائے تو آیت میں آسمان کے پھٹنے کے وقت اس کے دو وصفوں کا بیان ہو گا، ایک یہ کہ وہ حرارت کی شدت سے سرخ ہو گا اور دوسرا یہ کہ پگھل کر تیل کی طرح ہو جائے گا، جیسا کہ فرمایا: «يَوْمَ تَكُوْنُ السَّمَآءُ كَالْمُهْلِ» [ المعارج: ۸ ]”جس دن آسمان پگھلے ہوئے تانبے (یا تلچھٹ) کی طرح ہو جائے گا۔“(شنقیطی)