(آیت 55) ➊ فِيْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيْكٍ مُّقْتَدِرٍ: یہاں ” مُقْتَدِرٍ “ بمعنی ”صَادِقٌ“ برائے مبالغہ ہے، جیسے ”عَدْلٌ“ بمعنی ”عَادِلٌ“ برائے مبالغہ ہے اور ” مَقْعَدِ “ موصوف اپنی صفت ” صِدْقٍ “(بمعنی صَادِقٌ) کی طرف مضاف ہے، جیسے کہا جاتا ہے: ”مَسْجِدُ الْجَامِعِ۔“” صِدْقٍ “ کا اصل معنی خبر کا واقع کے مطابق ہونا ہے۔” فلاں شخص صادق ہے “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ جو بات کہتا ہے وہ واقع میں اسی طرح ہوتی ہے جیسے اس نے کہا۔ پھر یہ لفظ کسی بھی چیز کی تعریف کے لیے اور اس کے اپنے اوصاف میں کامل ہونے کے لیے بولا جانے لگا۔ ” فُلَانٌ رَجُلُ صِدْقٍ“ یعنی وہ رجولیت میں کامل ہے۔ اردو میں کہا جاتا ہے ” فلاں سچ مچ مرد ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَ لَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ» [یونس: ۹۳ ]”اور ہم نے بنی اسرائیل کو ٹھکانا دیا جو ٹھکانا ہونے میں کامل تھا، سچ مچ کا باعزت ٹھکانا تھا۔ “ اور فرمایا: «وَ اجْعَلْ لِّيْ لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْاٰخِرِيْنَ»[ الشعراء: ۸۴ ]”اور پیچھے آنے والوں میں میرے لیے سچی ناموری رکھ۔“ اور فرمایا: «وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ» [ بني إسرائیل: ۸۰ ]”اور کہہ اے میرے رب! داخل کر مجھے سچا داخل کرنا۔“” فِيْ مَقْعَدِ صِدْقٍ “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسی مجلس میں ہوں گے جو مجلس ہونے کے لحاظ سے ہر طرح کامل ہو گی، مجلس کے تمام لوازمات و مناسبات سے آراستہ ہو گی، سچ مچ کی مجلس ہو گی۔
➋ یاد رہے کہ یہاں ” مَقْعَدِ “ کا ترجمہ جو ”مجلس“ کیا گیا ہے وہ اس کا پورا مفہوم ادا نہیں کرتا، کیونکہ ” قَعْدٌ“ اور ”جَلَسٌ“ دونوں کا معنی اگرچہ ”بیٹھنا“ ہے، مگر ” مَقْعَدِ “ میں ٹھہرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے جو” مجلس“ میں نہیں پایا جاتا، مثلاً سورۂ توبہ کی آیت (۸۱): «فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰهِ» میں ” بِمَقْعَدِهِمْ “ کا معنی صرف بیٹھنا نہیں بلکہ ”بیٹھ رہنا“ ہے اور سورۂ نساء کی آیت (۹۵): «لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ» میں ” الْقٰعِدُوْنَ “ کا معنی ”بیٹھ رہنے والے مومن“ ہے۔ اسی طرح سورۂ نور کی آیت (۶۰): «وَ الْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ» میں ” الْقَوَاعِدُ “ کا معنی ”بیٹھ رہنے والیاں“ ہے۔ یہاں ” الْقَوَاعِدُ “ کے بجائے ”اَلْجَوَالِسُ“ کا لفظ استعمال نہیں ہو سکتا۔ سورۂ ق کی آیت (۱۷): «عَنِ الْيَمِيْنِ وَ عَنِ الشِّمَالِ قَعِيْدٌ» میں فرشتوں کے مسلسل ساتھ بیٹھے ہونے کا جو مفہوم ادا ہو رہا ہے وہ”جَلِيْسٌ“ میں نہیں۔ اب اس کے مقابلے میں سورۂ مجادلہ کی آیت(۱۱) دیکھیے، فرمایا: «اِذَا قِيْلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوْا فِي الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا يَفْسَحِ اللّٰهُ لَكُمْ وَ اِذَا قِيْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا» ”جب تمھیں کہا جائے کہ مجلسوں میں کھل جاؤ تو کھل جاؤ، اللہ تعالیٰ تمھارے لیے فراخی کر دے گا اور جب کہا جائے اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہو جاؤ۔“ یہاں ” تَفَسَّحُوْا “(کھل جاؤ) سے مجلس میں حرکت کا ثبوت ملتا ہے اور ” انْشُزُوْا “(اٹھ کھڑے ہو) سے ظاہر ہے کہ مجلس میں جلوس ترک بھی ہو سکتا ہے، لیکن ”قُعُوْدٌ“ کا معاملہ یہ نہیں۔ اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ متقی لوگ ” مقعد صدق “ میں ہوں گے جو پائیدار ہو گی۔ ”مجلس صدق “ کے لفظ سے یہ مفہوم ادا نہیں ہوتا۔ مفسر رازی نے یہ بات بہت مفصل اور مدلل لکھی ہے۔
➌ عِنْدَ مَلِيْكٍ مُّقْتَدِرٍ:” مَلِيْكٍ “”مُلْكٌ“ میں سے ”فَعِيْلٌ“ کا وزن ہے، ملک والا۔ اس میں ”مَلِكٌ“ سے زیادہ مبالغہ ہے، اس لیے ترجمہ ”عظیم بادشاہ“ کیا گیا ہے۔ ” مُقْتَدِرٍ “ میں ” قَادِرٌ“ یا ” قَدِيْرٌ“ سے زیادہ مبالغہ ہے، جیسا کہ پیچھے ” اَخْذَ عَزِيْزٍ مُّقْتَدِرٍ “ کے تحت گزرا ہے، اس لیے ترجمہ ”بے حد قدرت والا“ کیا گیا ہے۔ کسی بھی گھر یا مکان کے مرتبے کا تعین اس جگہ سے ہوتا ہے جہاں وہ واقع ہو، فرعون کی بیوی آسیہ علیھا السلام نے دنیا کی تمام سہولتیں چھن جانے پر اللہ تعالیٰ سے اپنے پاس گھر بنا کر دینے کی دعا کی تھی: «رَبِّ ابْنِ لِيْ عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ» [ التحریم: ۱۱ ]”اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا دے۔“ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات میں سے ” مَلِيْكٍ مُّقْتَدِرٍ “ کا ذکر فرمایا ہے، کیونکہ لوگ بادشاہوں کی مجلس میں اور ان کے پڑوس میں رہنے کے خواہش مند ہوتے ہیں اور جتنا زیادہ اقتدار والا بادشاہ ہو اتنی ہی اس کے قرب کی خواہش زیادہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کو بشارت سنائی کہ ان کی رہائش بادشاہوں کے بادشاہ کے پاس ہو گی جو سارے اقتدار کا مالک ہے۔ پھر ان کی عزت و شوکت کا کون اندازہ کر سکتا ہے۔ [ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ]