(آیت 44)اَمْ يَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِيْعٌ مُّنْتَصِرٌ: یہاں” جَمِيْعٌ “”كُلٌّ“(تمام)کے معنی میں نہیں بلکہ ”یاء“ کے اضافے کے ساتھ ”جَمْعٌ“ کے معنی میں ہے، مضبوط جماعت۔ ”اِنْتَصَرَ يَنْتَصِرُ اِنْتِصَارًا“ ظالم سے بچاؤ کرنا، دشمن سے انتقام لینا، مدِ مقابل پر غالب آنا۔ یا پھر ان کا کہنا یہ ہے کہ نہ ہم پہلوں سے بہتر ہیں اور نہ کسی کتاب میں ہمارے عذاب سے محفوظ رہنے کی کوئی بات موجود ہے، مگر ہم ایک مضبوط جماعت ہیں جو اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں، بدلا بھی لے سکتے ہیں اور مدِ مقابل پر غالب بھی آ سکتے ہیں، اس لیے ہمیں کوئی خوف نہیں۔ آیت میں التفات ہے، یعنی پچھلی آیت ” اَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ “ میں خطاب کا صیغہ ہے اور یہاں غائب کے صیغے کے ساتھ ان کا ذکر ہے، مراد ان کی تحقیر ہے کہ ایسی ڈینگیں مارنے والے خطاب کے قابل نہیں۔