(آیت 31) ➊ اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ صَيْحَةً وَّاحِدَةً: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے اعراف (۷۸) کی تفسیر۔
➋ فَكَانُوْا كَهَشِيْمِ الْمُحْتَظِرِ: ”هَشَمَ يَهْشِمُ هَشْمًا“(ض)”اَلشَّيءَ“ کسی چیز کو توڑ کر اور کچل کر ریزہ ریزہ کر دینا۔ ”هَشِيْمٌ“ روندی، کچلی ہوئی۔ ”حَظِيْرَةٌ“ باڑ کو کہتے ہیں جو جانوروں کے ارد گرد ٹہنیوں وغیرہ کے ساتھ بنائی جاتی ہے۔ اور” الْمُحْتَظِرِ “ باڑ بنانے والا۔باڑ کے پتے اور ٹہنیاں جو خشک ہو کر ٹوٹتی اور نیچے گرتی ہیں اور جانوروں کے پاؤں کے نیچے آکر کچلی اور روندی جاتی ہیں اور چورا بن جاتی ہیں انھیں ”هَشِيْمٌ“ کہا جاتا ہے۔ قومِ ثمود کا عذاب کے ساتھ جو حال ہوا اسے ان پتوں اور ٹہنیوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو باڑ سے گر کر جانوروں کے پاؤں میں آ کر چورا بن جاتے ہیں۔