(آیت 25،24) اَمْ لِلْاِنْسَانِ مَا تَمَنّٰى…: یعنی انھوں نے جو آرزوئیں دل میں پال رکھی ہیں کہ ان کے معبود دنیا میں ان کے کام آئیں گے اور آخرت میں انھیں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچا لیں گے، یا اگر آخرت قائم ہوئی تو انھیں وہاں بھی وہی آسائشیں ملیں گی جو انھیں دنیا میں میسر ہیں، تو سب سے پہلے یہ سوچیں کہ آیا انسان کی ہر تمنا جو وہ کرے، کیا پوری ہوتی ہے؟
ظاہر ہے ایسا ہرگز نہیں، کیونکہ دنیا کا مالک بھی صرف اللہ تعالیٰ ہے اور آخرت کا مالک بھی وہی ہے، اس لیے کسی اور کے چاہنے یا نہ چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا، بلکہ ہوتا وہی ہے جو مالک چاہے۔ پھر انھوں نے ان خود ساختہ معبودوں سے یہ توقع کیسے باندھ لی کہ وہ ان کی تمنائیں پوری کریں گے۔ یہاں تو بڑے سے بڑا شخص بھی خواہ اللہ کا خلیل ہو یا اس کا حبیب، اس کی مرضی کا پابند ہے اور اس کی وہی آرزو پوری ہوتی ہے جو مالک چاہتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کے والد کو دیکھ لو، نوح علیہ السلام کے بیٹے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو دیکھ لو، تم پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ کسی بھی شخص کی تمنا وہی پوری ہوتی ہے جو دنیا اور آخرت دونوں کا مالک چاہتا ہے۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
مَا كُلُّ مَا يَتَمَنَّي الْمَرْء يُدْرِكُهُ
تَجْرِي الرِّيَاحُ بِمَا لَا تَشْتَهِي السُّفُنُ
”ایسا نہیں کہ آدمی جو تمنا کرے اسے حاصل کر ہی لے، کیونکہ بہت دفعہ ہوائیں کشتیوں کی خواہش کے خلاف چلتی ہیں۔“