(آیت 23) ➊ اِنْ هِيَ اِلَّاۤ اَسْمَآءٌ سَمَّيْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ …: اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۷۱) اور سورۂ یوسف (۴۰) کی تفسیر۔
➋ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ: تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ یونس (66،36) کی تفسیر۔
➌ وَ مَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ …: یعنی یہ لوگ ان کی پرستش صرف اپنے دلوں کی خواہشات کی پیروی میں کر رہے ہیں۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ کوئی ایسا معبود ہو جو دنیا میں ان کے کام بناتا رہے اور اگر آخرت آ ہی جائے تو وہاں بھی انھیں بخشوا دے، مگر ان پر حلال و حرام کی کوئی پابندی ہو نہ ان کی خواہشات پر کوئی قدغن ہو۔ اس لیے کبھی کسی کو اللہ کی اولاد بنا کر پوجنا شروع کر دیتے ہیں، جیسے کوئی مسیح یا عزیر علیھما السلام کو اس کا بیٹا بنا کر پوجتا ہے، جیسے یہود و نصاریٰ اور کوئی فرشتوں کو بیٹیاں بنا کر، جیسے مشرکینِ عرب اور کبھی کسی کو اس کا ایسا محبوب یا محبوبہ بنا کر پوجنے لگتے ہیں جس کی محبت کے ہاتھوں وہ مجبور ہے اور ان کی کوئی بات ٹال نہیں سکتا، جیسا کہ عام بت پرست ہیں اور کئی جھوٹے مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے اور دل میں امید باندھ لیتے ہیں کہ ان کے بنائے ہوئے یہ خیالی معبود قیامت کے دن انھیں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچا لیں گے، کیونکہ ان کا اس کے ساتھ نسب یا محبت کا رشتہ ہے جس سے مجبور ہو کر اسے ان کی شفاعت ماننا پڑے گی۔ جب کہ حقیقت میں یہ سب ان کی ناکام تمنائیں اور آرزوئیں ہیں، بات یہ ہے: «وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰى»”اور بلاشبہ یقینا ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آچکی۔“ اور اصل ہدایت اور سیدھی راہ وہی ہے جو ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم لے کر ان کے پاس آئے ہیں۔