(آیت 11) ➊ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى: ” كَذَبَ “ کو سبعہ قراء ات میں دو طرح پڑھا گیا ہے۔ چنانچہ ابن عامر نے اسے ذال کی تشدید کے ساتھ ”كَذَّبَ“ پڑھا ہے، جھٹلایا۔ اس وقت معنی ہو گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھوں سے جو کچھ دیکھا دل نے اسے نہیں جھٹلایا، بلکہ اس کی تصدیق کی۔ دوسرے قراء نے ”ذال“ کو تشدید کے بغیر” كَذَبَ “ پڑھا ہے، جھوٹ کہا۔ یعنی دل نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا تو جھوٹ نہیں کہا، بلکہ سچ کہا کہ اس نے جبریل کو دیکھا ہے، جیسے آنکھوں نے دیکھا تو جھوٹ نہیں کہا۔ جبریل علیہ السلام کو دیکھنے میں آنکھیں اور دل دونوں شریک تھے۔ شیخ عبدالرحمن السعدی ”تیسیر الرحمن“ میں لکھتے ہیں: ”أَيْ اِتَّفَقَ فُؤَادُ الرَّسُوْلِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ رُؤْيَتُهُ عَلَي الْوَحْيِ الَّذِيْ أَوْحَاهُ اللّٰهُ إِلَيْهِ وَ تَوَاطَأَ عَلَيْهِ سَمْعُهُ وَ قَلْبُهُ وَ بَصَرُهُ“”یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل اور آپ کی رؤیت نے اس وحی پر اتفاق کیا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف کی اور اس پر آپ کے کان، آنکھیں اور دل متفق ہو گئے۔“ سید امیر علی ملیح آبادی ”مواہب الرحمن“ میں اس جملے کی تفسیر کے آخر میں لکھتے ہیں: ”بالجملہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دیکھا اس میں فواد اور آنکھ دونوں متفق و صادق ہیں۔“ بعض مفسرین نے ” كَذَبَ “(تشدید کے بغیر) کا معنی ”جھٹلایا“ کیا ہے، جبکہ یہ ”كَذَّبَ“(تشدیدِ ذال کے ساتھ) کا معنی ہے، ” كَذَبَ “(بلا تشدید) کا نہیں۔
➋ جو کچھ آنکھ نے دیکھا وہ یہ تھا کہ اس نے جبریل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دیکھا، دن کی روشنی میں دیکھا تاریکی میں نہیں دیکھا، جاگتے ہوئے دیکھا نیند یا نیم خوابی یا اونگھ کی حالت میں نہیں دیکھا، دل نے بھی دیکھنے میں آنکھوں کی موافقت کی اور کہہ دیا کہ واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جبریل فرشتے ہی کو دیکھا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لاتا ہے اور مسئلے میں کوئی شک و شبہ نہ رہا۔