(آیت 10) ➊ فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰى: ” فَاَوْحٰۤى “(پھر اس نے وحی کی) کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف بھی جا سکتی ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے (جبریل علیہ السلام کے واسطے سے) اپنے بندے کی طرف وحی کی اور ” فَاَوْحٰۤى “ کی ضمیر جبریل علیہ السلام کی طرف بھی جا سکتی ہے، مگر اس صورت میں ” عَبْدِهٖ “ میں ضمیر غائب سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہو گی، کیونکہ ” عَبْدِهٖ “ سے مراد ”اللہ کے بندے“ کے سوا کوئی ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نہیں آسمان و زمین کا ہر شخص اللہ کا بندہ ہے، جبریل یا کسی اور کا کوئی بندہ نہیں۔ اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ ”پھر جبریل نے اس اللہ کے بندے کی طرف وحی کی۔“
➋ ” مَاۤ اَوْحٰى “(جو وحی کی) کو مبہم رکھ کر اس کی عظمتِ شان کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ طٰہٰ کی آیت(۷۸): «فَغَشِيَهُمْ مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ» کی تفسیر۔ اس سے پچھلی آیات کے آخری فائدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وحی میں” يٰۤاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ “ سے ” وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ “ تک آیات بھی تھیں۔