(آیت 3)وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى: بھولنے یا جان بوجھ کر غلط راستے پر چلنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی صحیح راستہ بتانے والے کے بجائے اپنے گمان یا خواہشِ نفس پر چل پڑتا ہے۔ مشرکین اور تمام گمراہ لوگوں کی گمراہی کا اصل باعث یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے کے بجائے گمان اور اپنی خواہشِ نفس پر چلتے ہیں، جیسا کہ فرمایا: «اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ مَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰى»[ النجم: ۲۳ ]”یہ لوگ صرف گمان کے اور ان چیزوں کے پیچھے چل رہے ہیں جو ان کے دل چاہتے ہیں اور بلاشبہ یقینا ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آچکی۔“ ہمارا رسول ضلالت و غوایت سے اس لیے محفوظ ہے کہ وہ صرف ہمارے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہے، اپنی خواہش اور مرضی سے کوئی کام نہیں کرتا، حتیٰ کہ اپنی خواہش سے بولتا بھی نہیں۔