(آیت 52)كَذٰلِكَ مَاۤ اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ …: اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ معاملہ آپ ہی کے ساتھ پیش نہیں آیا کہ توحید اور آخرت کی دعوت سن کر جھٹلایا گیا ہو اور جادوگر یا دیوانہ کہا گیا ہو، بلکہ آپ سے پہلے جس قوم کے پاس بھی کوئی رسول آیا اس کے جاہلوں نے یہی کہا کہ یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے۔ وہ سب جب معجزوں کے سامنے لاجواب ہوتے تو انھیں جادو کہہ کر جھٹلا دیتے، جب رسول کے کلام کی بے پناہ تاثیر دیکھتے تو اسے جادوگر کہہ کر لوگوں کو اس سے دور رکھنے کی کوشش کرتے اور جب دیکھتے کہ اکیلا شخص پوری قوم کے خلاف توحید اور آخرت کی بات کر رہا ہے، نہ اپنے کسی دنیوی مفاد کی پروا کرتا ہے اور نہ ساری قوم کی مخالفت، استہزا اور اذیت رسانی کے باوجود اپنی دعوت سے باز آتا ہے تو اسے دیوانہ قرار دیتے۔