(آیت 22) ➊ وَ فِي السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ: اکثر مفسرین نے یہاں رزق سے مراد بارش لی ہے، جیسا کہ فرمایا: «هُوَ الَّذِيْ يُرِيْكُمْ اٰيٰتِهٖ وَ يُنَزِّلُ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ رِزْقًا»[ المؤمن: ۱۳ ]”وہی ہے جو تمھیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور تمھارے لیے آسمان سے رزق اتارتا ہے۔“ مگر لفظ عام ہیں، اس لیے رزق سے مراد وہ سب کچھ ہے جو دنیا میں انسان کو جینے، کھانے پینے اور کام کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ یعنی تمھیں جو کچھ دیا جا رہا ہے وہ آسمان میں اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے اور تمھیں وہیں سے عطا ہوتا ہے۔ ” وَ فِي السَّمَآءِ “ مقدم لانے سے کلام میں حصر پیدا ہو گیا، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ”تمھارا رزق آسمان ہی میں ہے۔“ تو جب تمھارا رزق آسمان ہی میں ہے تو پھر کمائی کے لیے اتنی فکر کیوں کہ جائز و ناجائز کی تمیز بھی نہ کی جائے اور حق والوں کو حق بھی نہ دیا جائے؟ پھر سائل اور محروم پر خرچ کرنے میں بخل اور دریغ کیسا؟ اور جب آتا آسمان سے ہے تو کسی پر خرچ کرکے اپنا احسان جتلانے کی کیا وجہ؟
➋ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ: یعنی حشر و نشر، جزا و سزا اور جنت و دوزخ وغیرہ، جن کے رونما ہونے کا وعدہ تمام انبیاء کی زبانی اور تمام آسمانی کتابوں کے ذریعے سے کیا گیا ہے، ان سب کا حکم آسمان ہی سے ہے۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں: ”آنے والی جو بات ہے اس کا حکم آسمان ہی سے اترتا ہے۔“(موضح)
➌ اس مقام پر بعض مفسرین نے کچھ لوگوں کے واقعات لکھے ہیں جنھوں نے یہ آیت سن کر کمائی ترک کر دی اور اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے جنگل بیابان کی راہ لی اور وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں تازہ کھجوریں اور رزق ملنے لگا۔ چنانچہ طبری نے سفیان ثوری کی زبانی نقل کیا ہے کہ واصل احدب نے یہ آیت ” وَ فِي السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ “ پڑھی تو کہنے لگے: ”میرا رزق تو مجھے آسمان میں نظر آ رہا ہے اور میں اسے زمین میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ ایک خرابے میں چلے گئے۔ تین دن تک کھانے کو کچھ نہ ملا، جب تیسرا دن ہوا تو اچانک ان کے پاس تازہ کھجوروں کی ایک ٹوکری آ گئی۔ ان کا ایک بھائی تھا، جو ان سے بھی اچھی نیت والا تھا، وہ بھی اس خرابے میں ان کے ساتھ آ گیا تو ٹوکریاں دو ہو گئیں۔ ان کا یہی حال رہا، یہاں تک کہ موت نے ان کے درمیان جدائی ڈال دی۔
حقیقت یہ ہے کہ ایسی ہی کہانیوں نے اسلام کا رخِ روشن مسخ کیا ہے۔ آسمان میں رزق ہونے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ آدمی کمانا ترک کر دے۔ یہ رہبانیت ہے جس کی اسلام میں گنجائش ہی نہیں، یہاں تو محنت کرکے کمانے اور دوسروں پر خرچ کرنے کی تلقین ہے، جنگلوں، بیابانوں یا خانقاہوں میں بیٹھ کر لوگوں کی طرف سے یا غیب سے آنے والے رزق کے انتظار کے بجائے جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے سے پاکیزہ ترین رزق حاصل کرنے کی ترغیب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی پوری زندگی اس کی شاہد ہے۔ آسمان میں رزق ہونے کا یقین دلانے کا مطلب صرف یہ ہے کہ آدمی اپنی ساری جد و جہد کے باوجود بھروسا صرف آسمان والے پر رکھے اور ایک لمحہ کے لیے بھی رزق کی خاطر اس کے حکم سے سرتابی نہ کرے۔ تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ ابن کثیر رحمہ اللہ جیسے محقق نے کسی تنقید کے بغیر یہ کہانی نقل کر دی ہے، حالانکہ طبری میں اس روایت کے راوی طبری کے استاذ محمد بن حمید رازی ہیں، جن کا ضعیف ہونا معروف ہے۔