(آیت 1) ➊ وَ الذّٰرِيٰتِ ذَرْوًا: قسم کا مقصد کسی بات کی تاکید اور اسے سچا ثابت کرنا ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی قسمیں دراصل اپنے جواب قسم کی دلیل اور شاہد ہیں جنھیں قسم کی صورت میں لایا گیا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے حق ہونے کی دلیل کے طور پر چار قسمیں کھائی ہیں۔
➋ وَ الذّٰرِيٰتِ ذَرْوًا: ” الذّٰرِيٰتِ “”ذَرَا يَذْرُوْ ذَرْوًا “ سے اسم فاعل ”ذَارِيَةٌ“ کی جمع ہے۔ اس کا معنی ”ہوا کا کسی چیز کو اڑانا اور بکھیرنا“ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «فَاَصْبَحَ هَشِيْمًا تَذْرُوْهُ الرِّيٰحُ» [ الکہف: ۴۵ ]”پھر وہ چورا بن گئی، جسے ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں۔“” ذَرْوًا “ مفعول مطلق ہے جو ” الذّٰرِيٰتِ “ کی تاکید کے لیے لایا گیا ہے۔ ” الذّٰرِيٰتِ “ کا لفظی معنی ہے اڑانے والیاں۔ اب ان اڑانے والیوں سے مراد کیا ہے؟ مفسرین کا اتفاق ہے کہ ان سے مراد ہوائیں ہیں جو تیز چلتی ہیں تو گرد و غبار اور خس و خاشاک کو اڑا کر بکھیرتی چلی جاتی ہیں۔