(آیت 45) ➊ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَقُوْلُوْنَ: یہ جملہ کفار کے لیے وعید اور دھمکی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی و تشفی کا باعث ہے۔
➋ وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ: یعنی آپ کا کام یہ نہیں کہ انھیں زبردستی مسلمان بنا لیں، آپ کا کام صرف پیغام پہنچانا ہے، جیسا کہ فرمایا: «اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُذَكِّرٌ (21) لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ»[ الغاشیۃ: 22،21 ]” تو صرف نصیحت کرنے والا ہے۔ تو ہرگز ان پر کوئی مسلط کیا ہوا نہیں ہے۔ “
➌ فَذَكِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ يَّخَافُ وَعِيْدِ: ” وَعِيْدِ “ اصل میں ”وَعِيْدِيْ“ ہے، میری وعید۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ دوسروں کو نصیحت نہ کریں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ کی نصیحت سے فائدہ وہی اٹھائے گا جو میری وعید سے ڈرتا ہے، جیسا کہ فرمایا: «اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ» [ فاطر: ۱۸ ]”تو تو صرف ان لوگوں کو ڈراتا ہے جو دیکھے بغیر اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔“