(آیت 38) ➊ وَ لَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ …: قیامت کی دلیل کے طور پر آسمان و زمین کے پیدا کرنے کا دوبارہ ذکر فرمایا کہ بلاشبہ یقینا ہم نے یہ سارے آسمان اور زمین چھ دن میں پیدا کیے اور ہمیں کسی قسم کی تھکاوٹ نے چھوا تک نہیں، تو ہم انسان کو دوبارہ کیوں زندہ نہیں کر سکتے؟ یہی بات پہلے فرمائی تھی: «اَفَعَيِيْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ» [ قٓ: ۱۵ ]”تو کیا ہم پہلی دفعہ پیدا کرنے کے ساتھ تھک کر رہ گئے ہیں؟“ دوبارہ اس لیے ذکر فرمائی کہ بار بار دہرانے سے بات ذہن میں بیٹھ جاتی ہے۔
➋ وَ مَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ: اس میں یہود و نصاریٰ کا ردّ بھی ہے جنھوں نے اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھا کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا اور ساتویں دن آرام کیا۔ کتاب مقدس میں تورات کے سفر التکوین (۲:۲) کے الفاظ ہیں: ”فَاسْتَرَاحَ فِي الْيَوْمِ السَّابِعِ“ یعنی ”ساتویں دن میں آرام کیا۔“