تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 33) مَنْ خَشِيَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِ: یعنی رحمان کو دیکھے بغیر اس سے ڈرتا ہے اور اس وقت بھی ڈرتا ہے جب وہ لوگوں سے غائب ہوتا ہے، کوئی اس کے پاس نہیں ہوتا۔ یہاں ایک سوال ہے کہ خشیت کے ساتھ لفظ رحمان لانے میں کیا حکمت ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ رحمان کا لفظ لانے میں اس شخص کی تعریف مقصود ہے کہ وہ اللہ کی رحمت اور اس کے معاف کر دینے کی صفت کا علم رکھنے کے باوجود اس سے ڈرتا ہے۔ (زمخشری) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللّٰهُ تَعَالٰی فِيْ ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّهُ ] سات آدمی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا جب اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ ان میں سے پانچویں کے بارے میں فرمایا: [ وَ رَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ إِنِّيْ أَخَافُ اللّٰهَ ] اور وہ آدمی ہے جسے اونچے حسب اور جمال والی عورت نے دعوت دی تو اس نے کہا میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ اور آخر میں فرمایا: [ وَ رَجُلٌ ذَكَرَ اللّٰهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ ] [ بخاري، الزکاۃ، باب الصدقۃ بالیمین: ۱۴۲۳ ] اور ایک وہ آدمی جس نے اکیلے ہونے کی حالت میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھیں بہ پڑیں۔

وَ جَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِيْبٍ: یعنی اس کے دل کا رجوع اللہ ہی کی طرف رہتا ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.