(آیت 30)يَوْمَ نَقُوْلُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَاْتِ …: یعنی یہ سب کچھ اس دن واقع ہو گا جب ہم جہنم سے کہیں گے کیا تو بھر گئی۔ اس کی سب سے صحیح تفسیر وہ ہے جو انس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ يُلْقٰی فِي النَّارِ وَ تَقُوْلُ هَلْ مِنْ مَّزِيْدٍ حَتّٰی يَضَعَ قَدَمَهُ فَتَقُوْلُ قَطْ قَطْ ][ بخاري، التفسیر، سورۃ قٓ، باب قولہ: «وتقول ھل من مزید»: ۴۸۴۸ ]”جہنم میں لوگ ڈالے جائیں گے اور وہ یہی کہتی رہے گی، کیا کچھ اور بھی ہے؟ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھ دے گا تو وہ کہہ اٹھے گی، بس بس۔“ بعض لوگوں کے کہنے کے مطابق جہنم یہ بات زبان حال سے کہے گی، مگر اس تاویل کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں حقیقت ممکن نہ ہو اور یہاں تو ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے زبان دے رکھی ہے جس کی بولی اگر ہم نہیں سمجھتے تو پیدا کرنے والا خوب سمجھتا ہے، جیسا کہ فرمایا: «وَ اِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ»[ بني إسرائیل: ۴۴ ]”اور کوئی بھی چیز نہیں مگر اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے اور لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔“ اور فرمایا: «وَ قَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَيْنَا١ؕ قَالُوْۤا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِيْۤ اَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ» [ حٰمٓ السجدۃ: ۲۱ ]”اور وہ اپنے چمڑوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی؟ وہ کہیں گے ہمیں اس اللہ نے بلوا دیا جس نے ہر چیز کو بلوایا۔“