(آیت 19) ➊ وَ جَآءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ: یہ ذکرکرنے کے بعد کہ انسان جو کچھ کرتا ہے سب اللہ کو معلوم ہے اور انسان کی کتابِ اعمال میں بھی لکھا ہوا اور محفوظ ہے اور اس کے سامنے پیش آنے والا ہے، اب اس حقیقت کے انسان کے سامنے آنے کے دو وقت بیان فرمائے، پہلا موت کا وقت اور دوسرا قیامت کا وقت۔ اس آیت میں موت کا ذکر ہے، موت کی بے ہوشی سے مراد اس کی سختی اور شدت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں موت اور قیامت کے لیے ماضی کے صیغے استعمال فرمائے ہیں، یعنی ” وَ جَآءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ “(اور موت کی بے ہوشی آ گئی) اور ” وَ نُفِخَ فِي الصُّوْرِ “(اور صور میں پھونکا گیا) حالانکہ یہ کام آئندہ ہونے والے ہیں، تو مقصد وہ نقشہ سامنے لانا اور یہ باور کروانا ہے کہ ان کا آنا اتنا یقینی ہے کہ سمجھو وہ آ چکے۔
➋ عائشہ رضی اللہ عنھا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وقت کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پانی کا ایک پیالہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ اس میں ڈالتے اور انھیں چہرے پر پھیرتے جاتے تھے اور ساتھ یہ فرماتے تھے: [ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ، إِنَّ لِلْمَوْتِ سَكَرَاتٍ ][ بخاري، المغازي، باب مرض النبي صلی اللہ علیہ وسلم و وفاتہ: ۴۴۴۹ ]”لا الٰہ الا اللہ، یقینا موت کی بہت سختیاں ہیں۔ “
➌ بِالْحَقِّ: موت کی بے ہوشی کے حق کو لے کر آنے کا مطلب یہ ہے کہ جان نکلنے کی سختی کے ساتھ ہی وہ حقیقت سامنے آ جائے گی جس پر دنیا میں پردہ پڑا ہوا ہے اور آدمی آنکھوں سے دیکھ لے گا کہ رسولوں نے جو بات بتائی تھی وہ حق اور سچ تھی۔
➍ ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيْدُ: ”حَادَ يَحِيْدُ حَيْدَةً“( بَاعَ يَبِيْعُ)کسی چیز سے کنی کترانا، بچ کر نکلنا، دور بھاگنا۔ ہر انسان ہی طبعی طور پر موت سے بھاگتا ہے، مگر اس سے چارہ نہیں اور نہ ہی انسان کی سدا زندہ رہنے کی خواہش پوری ہو سکتی ہے۔ دیکھیے سورئہ جمعہ (۸) اور احزاب (۱۶) کی تفسیر۔ یعنی یہ وہ حقیقت ہے جس کا سامنا کرنے سے تو پہلو تہی کرتا اور کنی کتراتا تھا اور چاہتا تھا کہ اس سے بچ کر اپنی من مانی کرتا رہے۔