(آیت 2) ➊ بَلْ عَجِبُوْۤا اَنْ جَآءَهُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْهُمْ: ” عَجِبُوْۤا “(انھوں نے تعجب کیا) میں ضمیر کفارِ قریش کے لیے ہے اور ڈرانے والے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ بعض نے کہا کہ ضمیر سے مراد تمام لوگ ہیں اور ”ان میں سے“ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی جنس سے ایک انسان ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات میں سے ” مُنْذِرٌ “ کا ذکر اس لیے فرمایا کہ آپ انھیں دوبارہ زندہ کیے جانے، اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے اور اس کے عذاب سے ڈراتے تھے۔
➋ فَقَالَ الْكٰفِرُوْنَ هٰذَا شَيْءٌ عَجِيْبٌ: یہ دوسری بات ہے جسے کفار نے عجیب قرار دیا اور وہ ہے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا۔ یہاں ”فَقَالُوْا“ کہنے کے بجائے جو یہ فرمایا ” فَقَالَ الْكٰفِرُوْنَ “ تو لفظ ” الْكٰفِرُوْنَ “ ان کی مذمت کے اظہار کے لیے ہے کہ اس تعجب کی بھی کوئی معقول وجہ نہیں، کیونکہ جس نے پہلی دفعہ انھیں پیدا کیا، جب ان کا نام و نشان تک نہ تھا، وہ دوبارہ بھی پیدا کر سکتا ہے، بلکہ یہ تعجب محض ان کے کفر اور ”میں نہ مانوں“ کی ضد کی وجہ سے ہے۔