ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے مجمعوں کے مواقع پر عموماً اس سورت کی تلاوت فرمایا کرتے تھے، مثلاً عید اور جمعہ۔ اس کے علاوہ فجر کی نماز میں بھی اس کی قراء ت فرمایا کرتے تھے، کیونکہ یہ ابتدائے خلق، بعث، نشور، معاد، قیام، حساب، جنت، جہنم، ثواب، عقاب اور ترغیب و ترہیب پر مشتمل ہے۔“(ابن کثیر) عبید اللہ بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی اور عید الفطر میں کیا پڑھا کرتے تھے؟“ تو انھوں نے کہا: ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں نمازوں میں ” قٓ وَ الْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ “ اور ” اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ “ پڑھا کرتے تھے۔“[ مسلم، صلاۃ العیدین، باب ما یقرأ بہ في صلاۃ العیدین: ۸۹۱ ] ام ہشام بنت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: ”میں نے سورۂ ق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر ہی یاد کی ہے، آپ ہر جمعہ کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے اسے پڑھا کرتے تھے۔“[ مسلم، الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ و الخطبۃ: ۸۷۳ ] جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: [ إِنَّ النَّبِيَّ صَلّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ فِي الْفَجْرِبِ «قٓ وَ الْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ» وَكَانَ صَلَاتُهُ بَعْدُ تَخْفِيْفًا ][ مسلم، الصلاۃ، باب القراءۃ في الصبح: ۴۵۸ ]”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز میں سورۂ ق پڑھا کرتے تھے، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہلکی ہوتی تھی۔“ بعض علماء نے ” وَكَانَ صَلَاتُهُ بَعْدُ تَخْفِيْفًا “ کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ اس کے بعد کی باقی نمازیں ہلکی ہوتی تھیں۔
(آیت 1) ➊ قٓ: مفسر ابن کثیر نے فرمایا: ” قٓ “ ان حروف تہجی میں سے ہے جو سورتوں کی ابتدا میں مذکور ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” صٓ “، ” نٓ “، ” الٓمّٓ “، ” حٰمٓ “، ” طٰسٓ “ وغیرہ۔ یہ مجاہد کا قول ہے۔ ہم سورۂ بقرہ کے شروع میں اس پر کلام کر چکے ہیں جسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ (ہماری اس تفسیر میں بھی سورۂ بقرہ کے شروع میں اس پر کلام گزر چکا ہے) بعض سلف سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا ” قٓ “ ایک پہاڑ ہے جو ساری زمین کو گھیرے ہوئے ہے، اسے جبل قاف کہتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے (واللہ اعلم) کہ یہ بنی اسرائیل کی خرافات سے ہے جو بعض لوگوں نے یہ سمجھ کر لے لی ہیں کہ بنی اسرائیل سے وہ روایات لینا جائز ہیں جنھیں ہم نہ سچا کہیں نہ جھوٹا۔ میرے نزدیک یہ اور اس جیسی دوسری باتیں بنی اسرائیل کے دشمنِ دین اور زندیق لوگوں کی گھڑی ہوئی ہیں، جن کے ذریعے سے وہ لوگوں کے دلوں میں ان کے دین کے بارے میں شکوک پیدا کرنا چاہتے تھے۔ جیسا کہ ہماری امت میں بڑے بڑے جلیل القدر علماء و حفاظ اور ائمہ کی موجودگی کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹی روایات گھڑ کر بیان کی گئی ہیں، حالانکہ کوئی زیادہ مدت بھی نہیں گزری۔ تو اتنی لمبی مدت میں بنی اسرائیل کا کیا حال ہو گا جن میں تنقید کرنے والے حفاظ بہت کم تھے، شرابیں پی جاتی تھیں اور ان کے علماء اللہ کے کلام اور اس کی آیات میں لفظی اور معنوی تحریف اور تبدیلی کیا کرتے تھے۔ شارع نے یہ کہہ کر کہ ”حَدِّثُوْا عَنْ بَنِيْ إِسْرَائِيْلَ وَلاَ حَرَجَ“(بنی اسرائیل سے بیان کرو اور کوئی حرج نہیں) صرف ان روایات کی اجازت دی ہے جنھیں عقل ممکن قرار دیتی ہو، رہی وہ باتیں جو عقلاً محال اور واضح طور پر باطل ہیں، وہ اس فرمان میں شامل نہیں ہیں۔“(ابن کثیر)” حَدِّثُوْا عَنْ بَنِيْ إِسْرَائِيْلَ وَلاَ حَرَجَ “ کی تفسیر جو ابنِ حبان رحمہ اللہ نے فرمائی ہے، اس تفسیر کے مقدمہ میں اسرائیلیات پر کلام میں ملاحظہ فرمائیں۔
اس کے بعد ابن کثیر نے ابن ابی حاتم کے حوالے سے ایک روایت نقل فرما کر اس کی تردید کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین کے پیچھے ایک سمندر پیدا فرمایا ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے، پھر اس کے پیچھے ایک پہاڑ پیدا فرمایا ہے جسے کوہِ قاف کہا جاتا ہے، جس کے اوپر آسمان دنیا ہے۔ اسی طرح سات زمینیں ہیں جن میں ہر ایک کے پیچھے ایک سمندر اور ایک کوہِ قاف ہے۔ غرض لمبی روایت ہے جو عقل و نقل اور مشاہدے کے صریح خلاف ہے۔ اگر واقعی قاف کسی پہاڑ کا نام بھی ہوتا تو اسے ” قٓ “ کے بجائے ”قاف“ لکھا جاتا۔ معلوم ہوتا ہے مسلمانوں میں کوہِ قاف اور اس کی پریوں کے افسانے ایسی ہی روایتوں سے رائج ہوئے ہیں اور کتبِ تفسیر میں نقل ہونے کی وجہ سے ملحد اور بے دین لوگوں کو اسلام اور قرآن و سنت پر اعتراض کا موقع مل گیا ہے، حالانکہ قرآن و سنت دونوں ایسی فضول باتوں سے پاک ہیں۔ غیر محتاط اور مکھی پر مکھی مارنے والے مفسرین کی باتوں کو لے کر اسلام پر اعتراض صرف بدباطن اور بدنیت لوگ ہی کرتے ہیں، اہلِ تحقیق کا یہ شیوہ نہیں۔
➋ وَ الْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ: قسم کسی بات کی تاکید کے لیے اٹھائی جاتی ہے، وہ تاکید یا تو اس چیز کی عظمت کی بنا پر ہوتی ہے جس کی قسم اٹھائی گئی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ اور اس کے اسمائے حسنیٰ کی قسم ہے، یا قسم کے اس بات کی دلیل اور شاہد ہونے کی بنا پر ہوتی ہے جو قسم کے جواب میں آ رہی ہو۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی قسم اس کے عظیم مجد و شرف کی بنا پر اٹھائی ہے اور اس بنا پر بھی کہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول برحق ہونے کی دلیل ہے۔ اس کا جوابِ قسم محذوف ہے جو اگلی آیت: «بَلْ عَجِبُوْۤا اَنْ جَآءَهُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْهُمْ فَقَالَ الْكٰفِرُوْنَ هٰذَا شَيْءٌ عَجِيْبٌ» سے سمجھ میں آ رہا ہے۔ اگلی آیت میں پہلی بات جس پر کفار کے تعجب کا ذکر ہے، یہ ہے کہ ان کی طرف خود ان میں سے ایک پیغمبر کیسے مبعوث ہو گیا؟ وہ تو کوئی فرشتہ ہونا چاہیے تھا۔ جواب قسم اس مفہوم کا جملہ ہو گا: ” إِنَّكَ رَسُوْلُ اللّٰهِ حَقًّا وَ مَا رَدُّوْا أَمْرَكَ بِحُجَّةٍ وَلَا كَذَّبُوْكَ بِبُرْهَانٍ “ یعنی یہ عظیم الشان قرآن اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور کفار نے آپ کی نبوت کا انکار کسی دلیل یا حجت کی بنا پر نہیں کیا بلکہ محض اس تعجب کی بنا پر کیا ہے کہ ان کے پاس ان میں سے ایک ڈرانے والا کیسے آ گیا؟ سورۂ یٰس میں اس قسم کا جواب محذوف نہیں بلکہ مذکور ہے، فرمایا: «يٰسٓ (1) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِيْمِ (2) اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ» [ یٰسٓ:۱ تا ۳ ]”يٰسٓ۔ اس حکمت سے بھرے ہوئے قرآن کی قسم! بلاشبہ تو یقینا بھیجے ہوئے لوگوں میں سے ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر کفار کے اس تعجب اور شبہے کا ذکر فرما کر اس کا ردّ فرمایا ہے۔ (دیکھیے بنی اسرائیل: ۹۴) سورۂ ص میں بھی ” وَ الْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ “ کا جواب محذوف ہے جو اس سے اگلی آیت: «بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ عِزَّةٍ وَّ شِقَاقٍ» سے معلوم ہو رہا ہے۔