(آیت 11) ➊ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا …: گزشتہ آیات میں مسلمانوں کے آپس میں لڑنے کی صورت میں ان کے درمیان صلح کروانے کا حکم دیا، اس سے پہلے بلاتحقیق خبر پر عمل سے منع فرمایا تھا، کیونکہ اس سے لڑائی پیدا ہو سکتی ہے اور لاعلمی میں نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے۔ یہاں سے مزید ان چیزوں سے منع فرمایا جو اسلامی اخوت کو نقصان پہنچاتی ہیں اور باہمی عداوت اور لڑائی کا باعث بنتی ہیں۔ اس آیت میں ایسی تین چیزیں ذکر فرمائیں: (1) کسی کا مذاق اڑانا۔ (2) کسی پر عیب لگانا۔ (3) کسی کو برے لقب سے پکارنا۔
➋ لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ: ”سَخِرَ يَسْخَرُ سَخَرًا وَسَخْرًا وَ سُخْرًا وَ سِخْرًا وَ سُخْرَةً و مَسْخَرًا بِهٖ وَ مِنْهُ “(ع) استہزا، مذاق اڑانا، ٹھٹھا کرنا، وہ ہنسی جس سے دوسرے کی تحقیر اور دل آزاری ہو۔ وہ ہنسی جس سے دوسرے کا دل خوش ہو وہ مزاح کہلاتی ہے، وہ جائز ہے بلکہ مسنون ہے۔ کشاف میں ہے: ”قوم کا لفظ مردوں کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ مرد عورتوں کے ”قوام“ ہوتے ہیں، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے:
وَلَا أَدْرِيْ وَ سَوْفَ إِخَالُ أَدْرِيْ
أَقَوْمٌ آلُ حِصْنٍ أَمْ نِسَاءُ
”اور میں نہیں جانتا اور میرا خیال ہے کہ میں جلد ہی جان لوں گا کہ آلِ حصن قوم (یعنی مرد) ہیں یا عورتیں۔“
یہ آیت بھی اس بات کی دلیل ہے، کیونکہ قوم کو ٹھٹھا کرنے سے منع کرنے کے بعد عورتوں کو اس سے منع فرمایا ہے۔ رہی یہ بات کہ قرآن میں مذکور قومِ فرعون اور قومِ ثمود وغیرہ میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں تو اصل یہ ہے کہ وہاں مردوں کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے، کیونکہ عورتیں ان کے تابع ہیں۔
➌ پہلی چیز جس سے منع فرمایا وہ کسی کا مذاق اڑانا یا تمسخر ہے، کیونکہ اس سے دلوں میں شدید بغض پیدا ہوتا ہے۔ جس کا مذاق اڑایا جائے وہ اسے اپنی تذلیل سمجھ کر ہر وقت انتقام کے موقع کی تلاش میں رہتا ہے اور ظاہر ہے انتقام میں بات کہاں سے کہاں تک جا پہنچتی ہے۔ کوئی شخص کسی کا ٹھٹھا اسی وقت اڑاتا ہے جب وہ اپنے آپ کو اس سے بہتر اور اس کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے اور یہ سمجھنا تکبر ہے، جس پر شدید وعید آئی ہے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِيْ قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ، قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُوْنَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً، قَالَ إِنَّ اللّٰهَ جَمِيْلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ ][ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ: ۹۱ ]”وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو گا۔“ ایک آدمی نے کہا: ”آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اور اس کا جوتا اچھا ہو(تو کیا یہ بھی تکبر ہے)؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ تکبر تو حق کے انکار اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔“ یہاں قوم کو قوم کا مذاق اڑانے سے منع فرمایا، کیونکہ عموماً کسی مجلس ہی میں کسی کا مذاق اڑایا جاتا ہے، ورنہ اکیلے کا مذاق اڑانا بھی منع ہے۔
➍ عَسٰۤى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ: مذاق اڑانے سے منع کرنے کی وجہ بیان فرمائی کہ جسے تم حقیر سمجھ کر ذلیل کر رہے ہو، ہو سکتا ہے وہ اللہ کے ہاں تم سے بہتر ہو، کیونکہ اچھا یا برا ہونے کا دارومدار ظاہری شکل و صورت پر نہیں، بلکہ دل کے تقویٰ پر ہے اور اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ پھر دار و مدار موجودہ حالت پر نہیں بلکہ خاتمے پر ہے، تمھیں کیا معلوم کہ اس کا خاتمہ تم سے اچھا ہو جسے تم حقیر سمجھ کر ذلیل کر رہے ہو۔
➎ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ: قرآن مجید میں عموماً احکام کے لیے مردوں ہی کو مخاطب کیا گیا ہے، عورتوں کا ذکر تابع ہونے کی وجہ سے الگ نہیں کیا گیا۔ یہاں عورتوں کو الگ بھی خطاب فرمایا، اس سے ظاہر ہے کہ عورتوں کو اس گناہ سے روکنے کی خاص ضرورت ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اس آیت میں مردوں کو مردوں سے اور عورتوں کو عورتوں سے ٹھٹھا کرنے سے منع فرمایا تو کیا مرد عورتوں سے یا عورتیں مردوں سے ٹھٹھا کر سکتی ہیں؟ جواب اس کا یہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں مردوں اور عورتوں کے ملے جلے معاشرے کی گنجائش ہی نہیں، جس میں وہ ایک دوسرے کا بے تکلف مذاق اڑا سکیں۔ یہاں مردوں اور عورتوں کی مجلسیں الگ الگ ہوتی ہیں، اس لیے دونوں کو الگ الگ منع فرمایا۔
➏ مذاق خواہ زبان کے ساتھ اڑایا جائے یا کسی کے نقص کی طرف اشارہ کرکے یا نقل اتار کر، ہر طرح کا مذاق حرام ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: [ حَسْبُكَ مِنْ صَفِيَّةَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ غَيْرُ مُسَدَّدٍ تَعْنِيْ قَصِيْرَةً، فَقَالَ لَقَدْ قُلْتِ كَلِمَةً لَوْ مُزِجَتْ بِمَاءِ الْبَحْرِ لَمَزَجَتْهُ قَالَتْ وَحَكَيْتُ لَهُ إِنْسَانًا فَقَالَ مَا أُحِبُّ أَنِّيْ حَكَيْتُ إِنْسَانًا وَ إِنَّ لِيْ كَذَا وَكَذَا][ أبوداوٗد، الأدب، باب في الغیبۃ: ۴۸۷۵، وقال الألباني صحیح ]”آپ کو صفیہ سے یہی کچھ کافی ہے کہ وہ ایسے ایسے ہے۔“ مسدد کے علاوہ دوسرے راوی نے وضاحت کی کہ مراد ان کے قد کا چھوٹا ہونا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقینا تم نے ایسی بات کی ہے کہ اگر سمندر کے پانی میں ملا دی جائے تو سارے پانی کو خراب کر دے۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا نے بیان کیا: ”اور میں نے آپ کے سامنے کسی انسان کی نقل اتاری (تو اس کا کیا حکم ہے)؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں پسند نہیں کرتا کہ میں کسی انسان کی نقل اتاروں، خواہ مجھے یہ یہ کچھ مل جائے۔“
➐ وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ: ”لَمَزَ يَلْمِزُ لَمْزًا“(ض،ن)کسی پر عیب لگانا، خفی کلام کے ساتھ آنکھ کا اشارہ کرنا، دھکا دینا، مارنا۔ مزید دیکھیے سورۂ ہمزہ کی آیت (۱): «وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ» کی تفسیر۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہنے کے بجائے کہ کسی پر عیب نہ لگاؤ، یہ فرمایا کہ اپنے آپ پر عیب نہ لگاؤ، جیسا کہ فرمایا: «وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ»[النساء: ۲۹]”اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔“ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تمام مسلمان ”كَالْجَسَدِ الْوَاحِدِ“(ایک جسم کی مانند) ہیں، عیب لگانے والے کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب وہ کسی مسلم بھائی پر عیب لگا رہا ہے تو درحقیقت وہ اپنے آپ ہی پر عیب لگا رہا ہے، سو اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب یہ دوسروں پر عیب لگائے گا تو عیب سے خالی تو یہ بھی نہیں اور دوسروں کی آنکھیں بھی ہیں اور زبان بھی، پھر اس کے عیوب بھی ظاہر کیے جائیں گے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اپنے آپ پر عیب مت لگاؤ۔“ اس آیت میں لوگوں کے سامنے کسی کے عیب ظاہر کرنے اور ان کا طعنہ دینے سے منع فرمایا، اگلی آیت میں کسی کی عدم موجودگی میں اس کے عیب ذکر کرنے یعنی غیبت سے بھی منع کیا۔ صرف ایک بات کی اجازت ہے اور وہ ہے نصیحت کہ اپنے بھائی کو الگ لے جا کر اسے اس کی غلطی بتا کر درست کرنے کی نصیحت کرے، جس طرح آئینہ غلطی بتاتا ہے مگر شور نہیں ڈالتا۔ لوگوں کے سامنے کسی مسلم کے منہ پر یا اس کی عدم موجودگی میں اس کے عیب کا اظہار کرنے کے بجائے اس پر پردہ ڈالنے کا حکم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لاَ يَظْلِمُهُ وَلاَ يُسْلِمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِيْ حَاجَةِ أَخِيْهِ كَانَ اللّٰهُ فِيْ حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُّسْلِمٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللّٰهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِّنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَ مَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ][ بخاري، المظالم، باب لا یظلم المسلم المسلم ولایسلمہ: ۲۴۴۲، عن ابن عمر رضی اللہ عنھما ]”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے اور جو شخص اپنے بھائی کے کام میں ہو اللہ اس کے کام میں ہوتا ہے اور جو کسی مسلم سے کوئی تکلیف دور کرے اللہ تعالیٰ قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف اس سے دور فرمائے گا اور جو کسی مسلم پر پردہ ڈالے، اللہ تعالیٰ اس پر پردہ ڈالے گا۔“
➑ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ: ”اَلنَّبَزُ“(نون اور باء کے فتحہ کے ساتھ) برے لقب کو کہتے ہیں، مثلاً لنگڑا، لولا، اندھا، کالا، ٹھگنا، کبڑا، گدھا، لومڑ یا کوئی بھی نام جس سے کسی کو تکلیف ہوتی ہو، مثلاً کسی سے کوئی گناہ ہوا ہو، تائب ہونے کے بعد عار دلانے کے لیے اسے چور یا زانی یا شرابی کہہ کر پکارنا۔ لقب ایسے نام کو کہتے ہیں جس سے کسی خوبی یا خامی کا اظہار ہوتا ہو، خواہ آدمی نے خود اپنے لیے رکھ لیا ہو یا کسی دوسرے نے رکھ دیا ہو۔ یہاں ” وَ لَا تَنَابَزُوْا “ کے قرینے سے لقب سے مراد برا نام ہے، کیونکہ اچھے القاب سے پکارنا تو قابلِ تعریف ہے، جیسے ابوبکر صدیق، عمر فاروق، حمزہ اسد اللہ، خالد سیف اللہ، ابوعبیدہ امین الامت، حذیفہ صاحب سر رسول اللہ، عبد اللہ بن مسعود صاحب المطہرۃ والوسادۃ والنعلین(رضی اللہ عنھم)۔ اس کے علاوہ عرب کا طریقہ اکرام کرتے ہوئے کنیت کے ساتھ پکارنے کا تھا، جسے اسلام نے برقرار رکھا۔ مومن کا حق یہ ہے کہ اسے اس نام سے پکارا جائے جو اسے اپنے لیے سب سے زیادہ پسند ہو، کیونکہ یہ محبت پیدا کرنے اور اسے قائم رکھنے کا باعث ہے۔ ” وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ “ یعنی کوئی شخص کسی دوسرے کا برا نام نہ رکھے جس سے وہ ناراض ہو، یا اس کی توہین و تذلیل ہوتی ہو اور نہ ایسے نام کے ساتھ اسے آواز دے کر پکارے۔ جاہلیت میں یہ بات عام تھی کہ ایک شخص نے دوسرے کا برا لقب رکھا تو اس نے اس کا رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا۔
ابوجبیرہ بن ضحاک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ”آیت: «وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ» ہم بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آئے تو ہم میں سے ہر آدمی کے دو دو، تین تین نام تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو کوئی نام لے کر بلاتے تو لوگ کہتے: ”یا رسول اللہ! اسے اس نام سے نہ بلائیں، کیونکہ وہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔“ تو اس پر یہ آیت: «وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ» اتری۔“[ أبوداوٗد، الأدب، باب في الألقاب:۴۹۶۲ ]
➒ اس حکم سے وہ القاب مستثنیٰ ہیں جو کسی کی پہچان بن چکے ہوں، نہ اس نام والا اسے برا سمجھتا ہو اور نہ اس سے مقصود تحقیر یا تذلیل ہو، بلکہ مقصود صرف تعارف ہو، جیسے سلیمان الاعمش (چندھیائی ہوئی آنکھوں والا)، واصل الاحدب (کبڑا)، حمید الطویل (لمبا)، ابوہریرہ اور ذوالیدین وغیرہ۔
➓ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ: اس سے معلوم ہوا کہ اوپر جن چیزوں سے روکا گیا ہے وہ سب فسوق ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ جو شخص ان کاموں کا ارتکاب کرے وہ مومن ہونے کے باوجود فاسق ہے اور یہ بہت بری بات ہے کہ آدمی کا نام فاسق رکھا جائے، اس کے بعد کہ اس کا نام مومن ہے۔ ” بَعْدَ الْاِيْمَانِ “(ایمان کے بعد) اس لیے فرمایا کہ اگر تم ایمان کا شرف حاصل نہ کر چکے ہوتے تو فاسق یا بدمعاش کہلانے میں عار کی کوئی خاص بات نہ تھی، لیکن اب ایمان لے آنے کے بعد یہ نام تم پر آنا بہت بری بات ہے۔ تمھیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ اب تم وہ ہو جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَ زَيَّنَهٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ وَ كَرَّهَ اِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْيَانَ» [ الحجرات: ۷ ]”اور لیکن اللہ نے تمھارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میں مزین کر دیا اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمھارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا۔“ تو تمھیں ہر ایسے کام سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے تم پر فسق کا نام آئے۔
⓫ وَ مَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ:”الف لام“ کمال کا ہے، یعنی اگرچہ جو بھی گناہ کرے ظالم ہے مگر توبہ سے اس ظلم کی تلافی ہو جاتی ہے۔ اصل ظالم وہی ہیں جو گناہوں پر اصرار کرتے ہیں اور توبہ کیے بغیر فوت ہو جاتے ہیں۔