(آیت 3) اِنَّ الَّذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ …: اس میں ان لوگوں کی تعریف ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم کا خیال رکھتے ہوئے آپ کے پاس اپنی آوازیں پست رکھتے تھے، جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق گزرا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کے تقویٰ کا امتحان کر کے دیکھ لیا کہ وہ پرہیز گاری کے امتحان میں پوری طرح کامیاب ہیں، جیسے سونے کو آگ میں ڈال کر دیکھا جاتا ہے اور وہ خالص نکلتا ہے، تو کہا جاتا ہے کہ ہم نے اس کے خالص ہونے کی آزمائش کر لی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آواز پست نہیں رکھتا اس کا دل تقویٰ سے خالی ہے، پھر جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سننے کے بعد اس کے خلاف آواز اٹھائے وہ تقویٰ اور ایمان سے کس قدر دور ہو گا۔