تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 38)هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا …: هَا حرف تنبیہ ہے، خبردار، یاد رکھو، سن لو۔ أَنْتُمْ مبتدا اور هٰۤؤُلَآءِ اس کی خبر ہے جو اَلَّذِيْنَ کے معنی میں ہے اور تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ هٰۤؤُلَآءِ کا صلہ ہے۔ یعنی یاد رکھو! تم وہ لوگ ہو کہ تمھیں دعوت دی جاتی ہے کہ اللہ کے راستے میں خرچ کرو تو تم میں سے کچھ وہ ہیں جو بخل کرتے ہیں۔

وَ مَنْ يَّبْخَلْ فَاِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖ: یعنی جو شخص اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے بخل کرتا ہے وہ اپنے خیال میں سمجھتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے بخل کیا ہے اور اسے مال نہیں دیا، حالانکہ درحقیقت وہ اپنے آپ ہی سے بخل کر رہا ہے اور اپنے آپ پر وہ مال خرچ نہیں کر رہا، کیونکہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے کہنے پر خرچ کرتا تو اس کا سارا فائدہ اسی کو ہونا تھا۔ اب اس نے بخل کیا تو اپنی ذات سے بخل کیا اور خود ہی محروم رہا۔

وَ اللّٰهُ الْغَنِيُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ: الْغَنِيُّ اور الْفُقَرَآءُ پر الف لام آنے سے حصر پیدا ہو گیا، یعنی اللہ ہی غنی ہے اور کوئی غنی نہیں اور تم ہی محتاج ہو اللہ تعالیٰ کو کوئی محتاجی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں خرچ کرنے کا حکم اپنی کسی ضرورت کے لیے نہیں دیا، وہ تو غنی ہے، محتاج تم ہی ہو اور تم جو کچھ خرچ کرو گے وہ بے حساب اضافے کے ساتھ تمھی کو لوٹا دے گا، جیسا کہ فرمایا: «‏‏‏‏مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً وَ اللّٰهُ يَقْبِضُ وَ يَبْصُۜطُ وَ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ» [ البقرۃ: ۲۴۵ ] کون ہے وہ جو اللہ کو قرض دے، اچھا قرض، پس وہ اسے اس کے لیے بہت زیادہ گنا بڑھا دے اور اللہ بند کرتا اور کھولتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ: اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ مائدہ کی آیت (۵۴) کی تفسیر۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.