(آیت 30) ➊ وَ لَوْ نَشَآءُ لَاَرَيْنٰكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِيْمٰىهُمْ: ”سِيْمَا“ علامت۔ پچھلی آیت سے ظاہر ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ منافقین کی دلی عداوتوں اور ان کے نفاق کو ظاہر کر دے گا۔ اس پر سوال پیدا ہوا کہ پھر اس نے منافقین کا نام لے کر یا ان پر کوئی علامت لگا کر انھیں کیوں ظاہر نہیں کیا؟ اس کے جواب میں فرمایا کہ اس کی وجہ منافقین کا خوف یا کوئی اور خطرہ نہیں بلکہ محض ہماری مشیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات لفظ ” لَوْ “ کے ساتھ بیان فرمائی ہے، جس کا استعمال ایسی شرط کے لیے ہوتا ہے جو واقع نہیں ہوتی، اس لیے اس کی جزا بھی واقع نہیں ہوتی۔ یعنی اگر ہم چاہتے تو ہر منافق کا نام لے کر یا اس پر خاص نشانی لگا کر اسے شخصی طور پر آپ کو دکھا دیتے، جس کے ساتھ آپ ان سب کو صاف پہچان لیتے، مگر ہم نے یہ چاہا نہ کوئی ایسی علامت مقرر کرکے شخصی طور پر آپ کو ان کی پہچان کروائی، کیونکہ ہماری مصلحت و حکمت اور ہمارے ستر و حلم کا تقاضا یہی تھا کہ ان کو اس طرح رسوا نہ کیا جائے کہ کوئی توبہ کرنا چاہے تو نہ کر سکے، کیونکہ ہمارے ہاں منافقین کے لیے بھی توبہ کا دروازہ کھلا ہے، جیسا کہ فرمایا: «لِيَجْزِيَ اللّٰهُ الصّٰدِقِيْنَ بِصِدْقِهِمْ وَ يُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِيْنَ اِنْ شَآءَ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْهِمْ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا»[الأحزاب: ۲۴ ]”تاکہ اللہ سچوں کو ان کے سچ کا بدلا دے اور منافقوں کو عذاب دے اگر چاہے، یا ان کی توبہ قبول فرمائے۔ بلاشبہ اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ “ اور اس میں اللہ تعالیٰ کی یہ بھی حکمت تھی کہ لوگ ظاہر کے مطابق فیصلہ کریں اور باطن کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں۔
➋ وَ لَتَعْرِفَنَّهُمْ فِيْ لَحْنِ الْقَوْلِ: ” وَ لَتَعْرِفَنَّهُمْ “ تاکید کا لام اور نون ثقیلہ قسم کے جواب میں آتا ہے، یعنی اگرچہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منافقین کا نام لے کر یا ان کے چہروں پر کوئی نشانی لگا کر ان کی اطلاع نہیں دی مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ انھیں بالکل نہیں پہچانتے تھے، اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر فرمایا کہ آپ ان کی بات کے لہجے اور انداز میں یقینا انھیں پہچان لیں گے۔ سورۂ توبہ میں منافقین کے بہت سے اقوال و احوال اور افعال ذکر فرمائے ہیں جن سے ان کی شناخت میں کچھ مشکل پیش نہیں آتی۔ ایسی ہی باتوں کا حوالہ دے کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبد اللہ بن اُبی کا جنازہ پڑھنے سے روکنے کی کوشش کی تھی، جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے منافقین کا جنازہ پڑھنے یا ان کی قبر پر کھڑے ہونے سے صراحت کے ساتھ منع فرما دیا۔ منافقین کی یہ پہچان بھی اللہ تعالیٰ نے ان کا نام لے کر یا ان پر نشانی لگا کر نہیں کروائی بلکہ بلا عذر جنگ تبوک سے پیچھے رہنے کو ان کی شناخت بنا دیا۔ چنانچہ جہاں ان پر جنازہ پڑھنے یا ان کی قبر پر کھڑا ہونے سے منع فرمایا ہے اس سے پہلے ان کا جرم بیان فرمایا ہے: «فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ۠ بِمَقْعَدِهِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰهِ وَ كَرِهُوْۤا اَنْ يُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ قَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِي الْحَرِّ» [ التوبۃ: ۸۱ ]”وہ لوگ جو پیچھے چھوڑ دیے گئے وہ اللہ کے رسول کے پیچھے اپنے بیٹھ رہنے پر خوش ہوئے اور انھوں نے ناپسند کیا کہ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کریں اور انھوں نے کہا اس گرمی میں مت نکلو۔“ پھر فرمایا: «فَاِنْ رَّجَعَكَ اللّٰهُ اِلٰى طَآىِٕفَةٍ مِّنْهُمْ فَاسْتَاْذَنُوْكَ لِلْخُرُوْجِ فَقُلْ لَّنْ تَخْرُجُوْا مَعِيَ اَبَدًا وَّ لَنْ تُقَاتِلُوْا مَعِيَ عَدُوًّا اِنَّكُمْ رَضِيْتُمْ بِالْقُعُوْدِ اَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوْا مَعَ الْخٰلِفِيْ (83) وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ» [ التوبۃ: 84،83 ]”پس اگر اللہ تجھے ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے آئے، پھر وہ تجھ سے (جنگ کے لیے) نکلنے کی اجازت طلب کریں تو کہہ دے تم میرے ساتھ کبھی نہیں نکلو گے اور میرے ساتھ مل کر کبھی کسی دشمن سے نہیں لڑو گے۔ بے شک تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر خوش ہوئے، سو پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔ اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس کا کبھی جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا، بے شک انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اس حال میں مرے کہ وہ نافرمان تھے۔ “ منافقین کی ایسی ہی حرکتوں اور باتوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی پہچان ہو جاتی تھی اور کئی مواقع پر آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بعض منافقین کے بارے میں آگاہ بھی فرمایا۔ صحیح مسلم کی ”كِتَابُ صِفَاتِ الْمُنَافِقِيْنَ وَ أحْكَامِهِمْ “ میں مذکور احادیث میں ایسے کئی منافقین کا ذکر ہے۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو بعض منافقین کے بارے میں جو آگاہ فرمایا مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے اس کی اور توجیہ فرمائی ہے، وہ لکھتے ہیں: ”اس آیت کے نزول تک آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو منافقین کی تشخیص کا علم نہ تھا، بعد اس کے کرایا گیا، جیسا کہ حدیثوں سے ثابت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ صحابی کو بتا دیا تھا۔“(تفسیر ثنائی)
➍ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ اَعْمَالَكُمْ: یعنی ممکن ہے بندوں کو کسی کے نفاق کا علم نہ ہو سکے مگر اللہ تعالیٰ تمھارے سب کام جانتا ہے، اس سے کوئی بات مخفی نہیں رہ سکتی۔