(آیت 20) ➊ وَ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَوْ لَا نُزِّلَتْ سُوْرَةٌ: اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے منافقوں اور ایمان والوں کا حال ان آیات کو سننے کے وقت فرمایا جو توحید، قیامت اور دوسرے اعتقادی معاملات سے تعلق رکھتی ہیں۔ چنانچہ ” وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّسْتَمِعُ اِلَيْكَ “ میں منافقین کا حال بیان فرمایا اور ” وَ الَّذِيْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى “ میں ایمان والوں کا حال بیان فرمایا۔ اب عمل سے تعلق رکھنے والی آیات مثلاً جہاد، نماز اور زکوٰۃ وغیرہ کے متعلق ان کا طرزِ عمل بیان فرمایا۔ وہ یہ کہ مخلص مومن ہمیشہ ایسے کاموں کے بارے میں وحی کے نزول کے منتظر اور امیدوار رہتے، تاکہ ان پر عمل کرکے زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکیں، جب اس کے نزول میں تاخیر ہوتی تو کہتے کہ ایسی کوئی آیت یا سورت کیوں نازل نہیں کی گئی اور منافقین کا یہ حال تھا کہ جب مشقت والی ایسی کوئی سورت یا آیت اترتی تو ان پر بہت شاق گزرتی، خصوصاً جہاد کا ذکر آنے پر تو خوف اور دہشت کے مارے ان کی آنکھیں کھلی رہ جاتیں۔
➋ وَ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَوْ لَا نُزِّلَتْ سُوْرَةٌ: ہجرت کے بعد اگرچہ سورۂ حج کی آیت (۳۹): «اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا» (ان لوگوں کو جن سے لڑائی کی جاتی ہے، اجازت دے دی گئی ہے، اس لیے کہ ان پر ظلم کیا گیا)کے ساتھ کفار سے قتال کی اجازت ہو چکی تھی، مگر اس کی فرضیت کا واضح حکم ابھی نہیں آیا تھا۔ مخلص مومن جو کفار کے ظلم و ستم سے شدید تنگ دل تھے اور فتح یا شہادت کے متمنی تھے، کہتے رہتے تھے کہ جہاد کے حکم والی کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی۔
➌ فَاِذَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَّ ذُكِرَ فِيْهَا الْقِتَالُ: محکم سورت سے مراد ایسی سورت ہے جس میں دیا جانے والا حکم واضح ہو، جس میں کوئی تاویل نہ کی جا سکے اور نہ وہ منسوخ ہو۔ مراد اس سے یہی سورۂ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے جس کا نام سورۂ قتال بھی ہے، کیونکہ اس میں ”جَاهِدُوْا“(جہاد کرو) یا ” قَاتِلُوْا “(لڑو) کے بجائے قتال کا حکم ” فَضَرْبَ الرِّقَابِ “ کے بالکل صریح الفاظ کے ساتھ دیا گیا کہ کفار سے مڈ بھیڑ ہو تو ان کی گردنیں اڑا دو اور خوب خون ریزی کے بعد انھیں قیدی بناؤ وغیرہ۔
➍ رَاَيْتَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ …: یعنی جب قتال کے واضح حکم والی سورت نازل کی گئی تو منافقین کا یہ حال ہوا۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں: ”مسلمان سورت مانگتے تھے، یعنی کافروں کی ایذا سے عاجز ہو کر آرزو کرتے کہ اللہ جہاد کا حکم دے تو جو ہم سے ہو سکے کر گزریں۔ جب جہاد کا حکم آیا تو منافق اور کچے لوگوں پر بھاری ہوا، خوف زدہ اور بے رونق آنکھوں سے پیغمبر کی طرف دیکھنے لگے کہ کاش! ہم کو اس حکم سے معاف رکھیں۔ بے حد خوف میں بھی آنکھ کی رونق نہیں رہتی، جیسے مرتے وقت آنکھوں کا نور جاتا رہتا ہے۔“(موضح) اس مضمون کی آیات کے لیے دیکھیے سورۂ نساء (۷۷) اور سورۂ احزاب (۱۹)۔
➎ فَاَوْلٰى لَهُمْ: مفسرین نے اس لفظ کی مختلف تفسیریں کی ہیں جن میں سب سے واضح اور تکلف سے خالی یہ ہے کہ یہ ” وَلِيَ يَلِيْ وَلْيًا “(س) سے اسم تفضیل ہے، جس کا معنی ہے زیادہ لائق، زیادہ قریب، بہتر۔ اب اس کی ترکیب دو طرح سے ہو سکتی ہے، ایک یہ کہ یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے جو اس سے پہلے جملے سے معلوم ہو رہا ہے، یعنی ”فَالْمَوْتُ أَوْلٰي لَهُمْ“”پس موت ہی ان کے لیے بہتر ہے، یا موت ہی ان کے لائق ہے۔“ دوسری تفسیر حافظ ابن کثیر نے فرمائی ہے کہ ” فَاَوْلٰى لَهُمْ “ خبر مقدم ہے اور اگلی آیت میں ” طَاعَةٌ وَّ قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ “ مبتدا مؤخر ہے۔ ان کے الفاظ میں عبارت یوں ہے: ” طَاعَةٌ وَّ قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ أَوْلٰي لَهُمْ، أَيْ وَكَانَ الْأَوْلٰي لَهُمْ أَنْ يَّسْمَعُوْا وَ يُطِيْعُوْا “ یعنی ان کے لیے بہتر تھا کہ وہ سنتے اور اطاعت کرتے۔