(آیت 35) ➊ فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ: توحید و رسالت اور قیامت کو دلائل سے ثابت کرنے اور کفار کے شہادت کا جواب دینے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر و استقامت کی نصیحت فرمائی، کیونکہ آپ کو دعوت الی اللہ کے جواب میں کفار کی بدزبانی، استہزا اور اذیت رسانی سے شدید قلق اور سخت تکلیف ہوتی تھی، اس لیے فرمایا کہ اے نبی! جس طرح پختہ ارادے اور مضبوط عزم و ہمت والے رسولوں نے صبر کیا، آپ بھی صبر کریں۔ رہی یہ بات کہ ان اولوا العزم رسولوں سے مراد کون ہیں؟ تو عموماً پانچ رسولوں کو اولوا العزم کہا جاتا ہے جن میں نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیھم السلام کے ساتھ پانچویں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، کیونکہ ان کا اکٹھا ذکر قرآن مجید میں دو مقامات پر آیا ہے، ایک سورۂ احزاب میں ہے، فرمایا: «وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِيّٖنَ مِيْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِيْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا»[ الأحزاب: ۷ ]”اور جب ہم نے تمام نبیوں سے ان کا پختہ عہد لیا اور تجھ سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم سے بھی اور ہم نے ان سے بہت پختہ عہد لیا۔“ اور دوسری آیت سورۂ شوریٰ کی ہے، فرمایا: «شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّ الَّذِيْۤ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْكَ وَ مَا وَصَّيْنَا بِهٖۤ اِبْرٰهِيْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِيْسٰۤى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ» [ الشورٰی: ۱۳ ]”اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا جس کا تاکیدی حکم اس نے نوح کو دیا اور جس کی وحی ہم نے تیری طرف کی اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا، یہ کہ اس دین کو قائم رکھو اور اس میں جدا جدا نہ ہو جاؤ۔“ مگر ان آیات میں نہ ان پیغمبروں کے اولوا العزم ہونے کا ذکر ہے اور نہ دوسرے پیغمبروں کے اولوا العزم نہ ہونے کا، اس لیے اسے عام رکھا جائے اور ” مِنْ “ کو بیانیہ قرار دیا جائے تو بہتر ہے۔ معنی یہ ہو گا کہ اس طرح صبر کر جس طرح پختہ ارادے والوں نے کیا، جو رسول تھے، جیسا کہ فرمایا: «فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ» [ الحج: ۳۰ ]”پس گندگی سے بچو، جو بت ہیں۔“ مطلب یہ ہے کہ آپ سے پہلے پیغمبر اپنی قوم کی بے رخی، مخالفت اور ایذا رسانیوں کا جس طرح عزم و ہمت اور صبر و استقامت کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے اسی طرح آپ بھی کریں۔
بعض مفسرین نے فرمایا کہ اولوا العزم سے تمام رسول مراد لینا درست نہیں، کیونکہ بعض رسولوں کے متعلق عزم کی نفی آئی ہے، جیسا کہ آدم علیہ السلام کے متعلق فرمایا: «فَنَسِيَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا» [ طٰہٰ: ۱۱۵ ]”پھر وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں ارادے کی کچھ پختگی نہ پائی۔“ اور یونس علیہ السلام کے متعلق فرمایا: «وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ» [ القلم: ۴۸ ]”اور تو مچھلی والے کی طرح نہ ہو۔“ اس لیے اولوا العزم سے اونچے درجے کے صاحبِ عزم رسول مراد ہیں، اگرچہ ان کی تعیین مشکل ہے۔ مگر ان مفسرین کی یہ بات اس لیے درست نہیں کہ اگرچہ آدم علیہ السلام سے یہ فعل سر زد ہو گیا مگر بعد میں ان کا درجہ پہلے سے بھی اونچا ہو گیا، جیسا کہ فرمایا: «ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَيْهِ وَ هَدٰى» [ طٰہٰ: ۱۲۲ ]”پھر اس کے رب نے اسے چن لیا، تو اس پر مہربانی فرمائی اور ہدایت دی۔“ اور یونس علیہ السلام کے متعلق فرمایا: «فَاجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ فَجَعَلَهٗ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ»[ القلم: ۵۰ ]”پھر اس کے رب نے اسے چن لیا، پس اسے نیکوں میں شامل کر دیا۔“ اس لیے توبہ کے بعد ان دونوں پیغمبروں کے بھی اولوا العزم ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
➋ وَ لَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْ: صبر کے حکم کے ساتھ ہی جلد بازی سے منع فرمایا، یعنی ان کے لیے جلدی کا مطالبہ نہ کریں کہ یہ لوگ جلدی ایمان کیوں نہیں لاتے، یا ایمان نہ لانے کی وجہ سے ان پر جلدی عذاب کیوں نہیں آ جاتا۔
➌ كَاَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوْعَدُوْنَ …: یعنی جب وہ اللہ کا عذاب دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے تو انھیں ایسا معلوم ہو گا کہ وہ دنیا میں ایک ساعت سے زیادہ نہیں رہے، کیونکہ عذاب کی شدت انھیں سال و ماہ کی وہ مدت فراموش کروا دے گی جو انھوں نے دنیا میں بسر کی، جیسا کہ فرمایا: «قٰلَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِيْنَ (112) قَالُوْا لَبِثْنَا يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَسْـَٔلِ الْعَآدِّيْنَ (113) قٰلَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا لَّوْ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ» [ المؤمنون: ۱۱۲ تا ۱۱۴ ]”فرمائے گا تم زمین میں سالوں کی گنتی میں کتنی مدت رہے؟ وہ کہیں گے ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے، سو شمار کرنے والوں سے پوچھ لے۔ فرمائے گا تم نہیں رہے مگر تھوڑا ہی، کاش کہ واقعی تم جانتے ہوتے۔“ کبھی انھیں وہ مدت ایک پہر معلوم ہو گی (دیکھیے نازعات: ۴۶) اور کبھی وہ قسمیں کھا کر کہیں گے کہ وہ دنیا میں صرف ایک گھڑی رہے ہیں۔ دیکھیے سورۂ روم (۵۵)۔
➍ بَلٰغٌ: یہ ”هٰذَا“ کی خبر ہے، یعنی یہ قرآن تو پیغام کا پہنچا دینا ہے، جیسا کہ فرمایا: «هٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِيُنْذَرُوْا بِهٖ» [ إبراھیم: ۵۲ ]”یہ لوگوں کے لیے ایک پیغام ہے اور تاکہ انھیں اس کے ساتھ ڈرایا جائے۔“
➎ فَهَلْ يُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ: یعنی قرآن کے پہنچ جانے کے بعد حجت تمام ہو گئی، اب بھی اگر کوئی فسق اور نافرمانی میں پڑا رہتا ہے تو وہ اپنی شامت کو خود دعوت دے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کو بے قصور نہیں پکڑا جاتا، وہاں وہی لوگ ہلاک کیے جاتے ہیں جو فاسق اور نافرمان ہوں۔