(آیت 31) ➊ يٰقَوْمَنَاۤ …: ” يٰقَوْمَنَاۤ “ کے ساتھ دوبارہ مخاطب کرنے کا مقصد اس بات کے اہم ہونے کی طرف متوجہ کرنا ہے جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ جس طرح خطیب کسی اہم بات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اثنائے کلام میں ”أَيُّهَا النَّاسُ“ کہتا ہے۔ (ابن عاشور)
➋ اَجِيْبُوْا دَاعِيَ اللّٰهِ: ” دَاعِيَ اللّٰهِ “ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اپنی ذات یا کسی بھی مخلوق کے بجائے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اسی کی اطاعت کی طرف تھی، جیسا کہ فرمایا: «قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ عَلٰى بَصِيْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِيْ وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ» [ یوسف: ۱۰۸ ]”کہہ دے یہی میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر، میں اور وہ بھی جنھوں نے میری پیروی کی ہے اور اللہ پاک ہے اور میں شریک بنانے والوں سے نہیں ہوں۔“ یہاں ایک سوال ہے کہ جنوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صبح کی نماز کے دوران قرآن مجید کی جو تلاوت سنی آپ نے اس میں کون سی آیات پڑھیں، جن میں وہ باتیں موجود تھیں جن کی تلقین جنوں نے اپنی قوم کو کی؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اگر ہمیں اور کوئی آیات معلوم نہ ہو سکیں تو سورۂ فاتحہ کی قراء ت تو یقینی ہے جو قرآن مجید کے تمام مضامین کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔
➌ يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَ يُجِرْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ: ” يَغْفِرْ “ اور ” يُجِرْ“” اَجِيْبُوْا “ اور ” اٰمِنُوْا “(فعل امر) کا جواب ہونے کی وجہ سے مجزوم ہیں۔ ” يُجِرْ “ اصل میں ”يُجِيْرُ“ ہے، جو باب افعال کا مضارع معلوم ہے۔ راء پر جزم آنے کی وجہ سے یاء اور راء دو ساکن جمع ہونے پر یاء کو حذف کر دیا گیا تو ” يُجِرْ “ ہو گیا۔
➍ ” يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ “ میں ” مِنْ “ لانے کا کیا فائدہ ہے؟ اس کے لیے دیکھیے سورۂ نوح (۴) کی تفسیر۔
➎ اللہ کے داعی کی دعوت قبول کرنے اور اس پر ایمان لانے پر دو بشارتیں دیں، ایک اس فائدے کے حصول کی بشارت جو تمھیں ایمان لانے سے حاصل ہو گا کہ وہ تمھارے گناہ بخش دے گا اور دوسری ناقابلِ تلافی نقصان سے بچنے کی بشارت کہ وہ تمھیں عذابِ الیم سے پناہ دے گا۔