(آیت 28) ➊ فَلَوْ لَا نَصَرَهُمُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا …: ” قُرْبَانًا “ حال ہے یا مفعول لہ ہے، ترجمہ مفعول لہ کے مطابق کیا گیا ہے۔ اہل مکہ اور ان کے اردگرد کی قوموں کا سب سے بڑا اور مشترکہ جرم یہ تھا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا کئی ایسے الٰہ بنا رکھے تھے جن کے متعلق وہ سمجھتے تھے کہ وہ مصیبت کے وقت ان کے کام آتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی سفارش کرتے ہیں، اس کے پاس ان کی فریادیں پہنچاتے ہیں اور انھیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ سورۂ زمر میں گزر چکا ہے کہ مشرکینِ مکہ بھی اپنے پیش رو لوگوں کی طرح کہا کرتے تھے: «مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَاۤ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى» [ الزمر: ۳ ]”ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں۔“ اور سورۂ یونس میں ہے: «هٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِ» [ یونس: ۱۸ ]”یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔“ پھر چاہیے تو یہ تھا کہ جب اس جرم کی پاداش میں ان پر عذاب آیا تو وہ ان کی مدد کو پہنچتے، مگر کوئی ان کی مدد کو نہ پہنچا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر ان کے ان داتاؤں، حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں نے ان کی مدد کیوں نہ کی جنھیں ان لوگوں نے قرب حاصل کرنے کے لیے اللہ کے سوا معبود بنایا ہوا تھا؟
➋ بَلْ ضَلُّوْا عَنْهُمْ: یعنی جب وہ وقت آیا جس کے لیے ان کی پوجا کی جاتی تھی اور ان کے سامنے نذرانے پیش کیے جاتے تھے، تو وہ معبود یوں غائب ہو گئے کہ کہیں ان کا سراغ نہ ملا۔
➌ وَ ذٰلِكَ اِفْكُهُمْ وَ مَا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ: معلوم ہوا کہ ان کی وہ باتیں جو انھوں نے اپنے معبودوں کی دھاک بٹھانے کے لیے گھڑ رکھی تھیں سب جھوٹ تھیں اور وہ سراسر بہتان تھیں جو وہ باندھتے رہتے تھے۔