(آیت 17) ➊ وَ الَّذِيْ قَالَ لِوَالِدَيْهِ اُفٍّ لَّكُمَاۤ: ” اُفٍّ “ کا لفظ اکتاہٹ اور تنگ پڑ جانے کے موقع پر بولا جاتا ہے۔
پچھلی آیت میں ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والی سعادت مند مومن اولاد کا اور ان کے حسن انجام کا ذکر تھا، اس آیت میں ان کے مقابلے میں اس بدبخت اور نافرمان اولاد کا اور ان کے برے انجام کا ذکر ہے جس کے والدین مومن ہیں اور وہ اس کوشش میں ہیں کہ ان کی اولاد ایمان لے آئے، مگر ان کی اولاد اس دعوت پر شدید اکتاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے انھیں کہتی ہے، تم دونوں کے لیے ”اُف“ ہے، تم نے مجھے تنگ کر دیا۔ مکہ میں ایسے بہت سے خاندان تھے جن میں والدین ایمان لے آئے تھے مگر اولاد مشرک اور قیامت کی منکر تھی، یا اولاد ایمان لے آئی تھی اور والدین مشرک تھے۔
➋ اَتَعِدٰنِنِيْۤ اَنْ اُخْرَجَ وَ قَدْ خَلَتِ الْقُرُوْنُ مِنْ قَبْلِيْ: کیا تم مجھے ڈراتے ہو کہ مجھے دوبارہ قبر سے زندہ کرکے نکالا جائے گا جب میں مٹی اور ہڈیوں کی صورت ہو چکا ہوں گا؟ حالانکہ مجھ سے پہلے صدیاں گزر چکیں، آج تک کوئی واپس نہیں آیا۔ یہاں اس بدبخت کی اس بات کا جواب ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر اس کا جواب آ چکا ہے۔
➌ وَ هُمَا يَسْتَغِيْثٰنِ اللّٰهَ: اور وہ دونوں اس کی اتنی گستاخانہ اور کفریہ بات کے شر سے پناہ مانگنے کے لیے فریاد کرتے ہیں کہ یا اللہ! ہمیں اس کے شر سے بچا اور اسے ہدایت دے۔
➍ وَيْلَكَ اٰمِنْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ:” وَيْلَكَ “ کا لفظ اگرچہ بددعا ہے، مگر بعض دفعہ اسے نہایت محبت و شفقت اور دردمندی کے اظہار کے لیے بولا جاتا ہے، جیسے ” ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ“(تجھے گم کرنے والیاں گم پائیں)۔ یعنی ماں باپ اسے سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں، تیرا ستیا ناس ہو، ایمان لے آ اور آخرت کا انکار نہ کر، کیونکہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، مگر وہ نہایت نفرت کے ساتھ انھیں جھڑک دیتا ہے۔
➎ فَيَقُوْلُ مَا هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ: اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ انفال (۳۱)، مومنون (۸۳) اور نمل (۶۸)۔