تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 11)وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَوْ كَانَ خَيْرًا …: لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا میں لام کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے مخاطب ہو کر کہا، بلکہ یہ ہے کہ ان کے بارے میں کہا۔ پچھلی آیت میں مشرکین کے ایمان نہ لانے کا باعث ان کا تکبر ذکر فرمایا تھا، اب ان کے تکبر اور خود پسندی کی ایک مثال ذکر فرمائی جس کی بنا پر وہ ایمان کی نعمت سے محروم رہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی دنیا کی نعمتوں پر اس قدر مغرور ہیں کہ اس کی ہر نعمت کا مستحق صرف اپنے آپ ہی کو سمجھتے ہیں۔ بلال، عمار، عبد اللہ بن مسعود، سمیہ اور زنیرہ رضی اللہ عنھم جیسے مسکین اور ضعیف مسلمانوں کو وہ اللہ تعالیٰ کے کسی انعام کے قابل ہی نہیں سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے اسلام کے ہر خیر سے خالی ہونے کی دلیل یہ تصنیف کی کہ اگر اسلام میں کوئی خوبی ہوتی تو یہ لوگ ہم سے پہلے اس کی طرف نہ آتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبر کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی: [ اَلْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ ] [ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ: ۹۱ ] تکبر حق کے انکار اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ مشرکین مسلمانوں کو کس قدر حقیر جانتے تھے، اس کا اندازہ اس آیت سے بھی ہوتا ہے: «‏‏‏‏وَ كَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّيَقُوْلُوْۤا اَهٰۤؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنْۢ بَيْنِنَا» [ الأنعام: ۵۳ ] اور اسی طرح ہم نے ان میں سے بعض کی بعض کے ساتھ آزمائش کی ہے، تاکہ وہ کہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے ہمارے درمیان میں سے احسان فرمایا ہے؟ نوح علیہ السلام کی قوم کے سرداروں کا اندازِ تحقیر ملاحظہ فرمائیں، انھوں نے نوح علیہ السلام سے کہا: «‏‏‏‏مَا نَرٰىكَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَ مَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِيْنَ هُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّاْيِ وَ مَا نَرٰى لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍۭ بَلْ نَظُنُّكُمْ كٰذِبِيْنَ» [ ھود: ۲۷ ] ہم تجھے نہیں دیکھتے مگر اپنے جیسا ایک بشر اور ہم تجھے نہیں دیکھتے کہ ان لوگوں کے سوا کسی نے تیری پیروی کی ہو جو ہمارے سب سے رذیل ہیں، سطحی رائے کے ساتھ اور ہم تمھارے لیے اپنے آپ پر کوئی برتری نہیں دیکھتے، بلکہ ہم تمھیں جھوٹے گمان کرتے ہیں۔

وَ اِذْ لَمْ يَهْتَدُوْا بِهٖ فَسَيَقُوْلُوْنَ…: کفار کے جن اقوال کا یہاں ذکر ہوا ان سب کا مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کو جھٹلانا تھا، مثلاً یہ کہنا کہ یہ سحر ہے، افترا ہے، اس میں کوئی خیر نہیں وغیرہ۔ فرمایا جب وہ اس قرآن کے ذریعے سے سیدھا راستہ حاصل نہ کر سکے تو وہ یہی کہتے رہیں گے کہ یہ قدیم جھوٹ ہے۔ یعنی اگر وہ ضد اور عناد پر اڑے رہے تو کسی صورت ایمان نہیں لائیں گے اور نہ کوئی عقلی یا نقلی دلیل تسلیم کریں گے، بلکہ ان کے سامنے پہلے انبیاء اور اہلِ علم کی شہادت پیش کی گئی تو وہ تمام پیغمبروں اور کتابوں کو بھی یہ کہہ کر رد کر دیں گے کہ یہ قدیم جھوٹ ہے جو پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ ان کے اس رویے کا باعث صرف ان کا کفر اور تکبر ہے، جب تک وہ اس پر قائم رہیں گے یہی بات کہتے رہیں گے، جیسا کہ فرمایا: «وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفْكٌ افْتَرٰىهُ وَ اَعَانَهٗ عَلَيْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ فَقَدْ جَآءُوْ ظُلْمًا وَّ زُوْرًا (4) وَ قَالُوْۤا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا» [ الفرقان: ۴، ۵ ] اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا، یہ نہیں ہے مگر ایک جھوٹ، جو اس نے گھڑ لیا اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس پر اس کی مدد کی، سو بلاشبہ وہ بھاری ظلم اور سخت جھوٹ پر اتر آئے ہیں۔ اور انھوں نے کہا یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں، جو اس نے لکھوا لی ہیں، تو وہ پہلے اور پچھلے پہر اس پر پڑھی جاتی ہیں۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.