(آیت 4) ➊ قُلْ اَرَءَيْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ …: جیسا کہ پچھلی آیت کی تفسیر میں تفصیل سے بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اکیلے معبود ہونے کی اور اس کے سوا تمام معبودوں کے باطل ہونے کی سب سے بڑی اور واضح دلیل اس کا کائنات کو پیدا کرنا ہے۔ یہ عقلی دلیل ہے جسے کوئی صاحبِ عقل ردّ نہیں کر سکتا، کفار کی اس کے جواب سے بے بسی واضح کرنے کے لیے اسے مناظرانہ انداز میں پیش کرنے کا حکم دیا کہ آپ ان سے کہیں کہ مجھے بتاؤ کہ اللہ کے سوا جن ہستیوں کو تم پکارتے ہو، ذرا مجھے دکھاؤ زمین کی وہ کون سی چیز ہے جو انھوں نے پیدا کی ہے، یا آسمانوں میں ان کا کوئی حصہ ہے تو وہ دکھاؤ؟ ظاہر ہے وہ ایسی کوئی چیز دکھا ہی نہیں سکتے، تو پھر کسی اور معبود کی عبادت کیوں کرتے ہیں۔ یہاں ایک لمبی بات کو مختصر کر دیا ہے، اصل یہ تھا کہ مجھے دکھاؤ کہ زمین و آسمان کی کون سی چیز ہے جو پوری کی پوری انھوں نے پیدا کی ہو، یا زمین و آسمان کی کوئی چیز دکھاؤ جو پوری نہ سہی اس کے بنانے یا چلانے میں ان کا حصہ ہی ہو۔ پہلے جملے میں سے صرف زمین کا ذکر فرمایا آسمان کو حذف کر دیا، دوسرے جملے میں آسمانوں کا ذکر فرمایا زمین کو حذف کر دیا۔ یہ بات خود بخود سمجھ میں آ رہی ہے کہ دونوں جملوں میں دونوں مراد ہیں، اسے بلاغت کی اصطلاح میں احتباک کہتے ہیں۔
بعض مفسرین نے یہاں لکھا ہے کہ آیت میں زمین کی کسی چیز کو پیدا کرنے کی نفی اور آسمانوں کی چیز میں شرکت کی نفی اس لیے فرمائی ہے کہ بظاہر زمین کی بعض اشیاء میں ان کی شرکت ہے جو آسمانوں میں بظاہر بھی نہیں۔ مگر یہ درست نہیں، کیونکہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں زمین و آسمان دونوں کی کسی چیز میں ان کی شرکت کی نفی فرمائی ہے۔ اس لیے وہی تفسیر درست ہے جو اوپر کی گئی ہے۔ دیکھیے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: «قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِي الْاَرْضِ وَ مَا لَهُمْ فِيْهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّ مَا لَهٗ مِنْهُمْ مِّنْ ظَهِيْرٍ»[ سبا:۲۲]”کہہ دے پکارو ان کو جنھیں تم نے اللہ کے سوا گمان کر رکھا ہے، وہ نہ آسمانوں میں ذرہ برابر کے مالک ہیں اور نہ زمین میں اور نہ ان کا ان دونوں میں کوئی حصہ ہے اور نہ ان میں سے کوئی اس کا مدد گار ہے۔“
➋ اِيْتُوْنِيْ بِكِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ هٰذَاۤ اَوْ اَثٰرَةٍ مِّنْ عِلْمٍ ……: ” اَثٰرَةٍ “”أَثَرَ يَأْثِرُ أَثَرًا وَ أَثَارَةً وَ أَثْرَةً“(ض، ن)الْحَدِيْثَ“ بات کو نقل کرنا۔ ”مَأْثُوْرٌ“ بمعنی ”منقول“” اَثٰرَةٍ مِّنْ عِلْمٍ “ نقل شدہ یا پہلے لوگوں کا باقی ماندہ علم۔ یہ شرک کی تردید کی نقلی دلیل ہے، یعنی شرک کی عقلی دلیل پیش نہیں کر سکتے تو کوئی معتبر نقلی دلیل ہی لے آؤ۔ قرآن سے پہلے کی کسی آسمانی کتاب مثلاً تورات یا انجیل وغیرہ سے شرک کا ثبوت لے آؤ، وہ دلیل جو کسی قابلِ اعتماد طریقے سے ہم تک پہنچی ہو، کیونکہ اس کے بغیر اس کا آسمانی کتاب ہونا ثابت ہی نہیں ہوتا۔ یا پہلے انبیاء کی احادیث میں سے منقول کوئی حدیث لے آؤ، جو محض ظن و تخمین سے منقول نہ ہو بلکہ اس سے علم و یقین حاصل ہوتا ہو۔ اس طرح کہ وہ صحیح سند یا تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہو، کیونکہ وہم و گمان پر مبنی چیز کو علم نہیں کہا جاتا، جیسا کہ فرمایا: «وَ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَيْـًٔا»[النجم: ۲۸ ]”حالانکہ انھیں اس کے متعلق کوئی علم نہیں، وہ صرف گمان کے پیچھے چل رہے ہیں اور بے شک گمان حق کے مقابلے میں کسی کام نہیں آتا۔ “ مگر تمھیں ایسی کوئی معتبر قدیم آسمانی کتاب یا کسی نبی کی حدیث نہیں ملے گی جس میں شرک کا شائبہ تک موجود ہو، کیونکہ ہر رسول نے توحید ہی کی تعلیم دی، فرمایا: «وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ»[ النحل: ۳۶ ]”اور بلاشبہ یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔“ اور فرمایا: «وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْۤ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ»[ الأنبیاء: ۲۵ ]”اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو۔“ بعض اہلِ علم نے فرمایا کہ ”اگر یہاں کتاب سے مراد کتابِ الٰہی اور بقیہ علم سے مراد انبیاء و صلحاء کا چھوڑا ہوا علم نہ بھی لیا جائے تو دنیا کی کسی علمی کتاب اور دینی یا دنیوی علوم کے کسی ماہر کی تحقیقات میں بھی آج تک اس امر کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے کہ زمین یا آسمان کی فلاں چیز کو خدا کے سوا فلاں بزرگ یا دیوتا نے پیدا کیا ہے، یا انسان جن نعمتوں سے اس کائنات میں متمتع ہو رہا ہے ان میں سے فلاں نعمت خدا کے بجائے فلاں معبود کی آفریدہ ہے۔“ مگر یہ بات کلی طور پر درست نہیں، کیونکہ کئی دہریہ سائنسدان اپنی تحقیق کے ذریعے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کائنات خود بخود پیدا ہوئی اور خود بخود ہی چل رہی ہے۔ زمانے کو خالق و مالک قرار دینے والے لوگ اپنی اس جہالت کو تحقیق ہی کہتے ہیں۔ اس لیے کتاب سے مراد آسمانی کتاب ہی لینا چاہیے، کیونکہ دوسری آیت سے صاف ظاہر ہے کہ کتاب سے مراد اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے، جیسا کہ فرمایا: «قُلْ اَرَءَيْتُمْ شُرَكَآءَكُمُ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَرُوْنِيْ مَا ذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمٰوٰتِ اَمْ اٰتَيْنٰهُمْ كِتٰبًا فَهُمْ عَلٰى بَيِّنَتٍ مِّنْهُ بَلْ اِنْ يَّعِدُ الظّٰلِمُوْنَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا اِلَّا غُرُوْرًا» [ فاطر: ۴۰ ]”کہہ دے کیا تم نے اپنے شریکوں کو دیکھا، جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو؟ مجھے دکھاؤ زمین میں سے انھوں نے کون سی چیز پیدا کی ہے، یاآسمانوں میں ان کا کوئی حصہ ہے، یا ہم نے انھیں کوئی کتاب دی ہے کہ وہ اس کی کسی دلیل پر قائم ہیں؟ بلکہ ظالم لوگ، ان کے بعض بعض کو دھوکے کے سوا کچھ وعدہ نہیں دیتے۔“ ان آیات سے معلوم ہوا کہ دین میں دلیل کے طور پر آسمانی کتاب پیش کی جا سکتی ہے یا آسمانی وحی پر مشتمل احادیث، ان کے علاوہ کسی کی تصنیف کو یا اس کے اقوال کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جا سکتا۔