(آیت 29) ➊ هٰذَا كِتٰبُنَا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِّ: اس میں ” يَنْطِقُ “ کا لفظ قابلِ توجہ ہے، کیونکہ کتاب تو پڑھی جاتی ہے مگر وہ کتاب بول کر سب کچھ ٹھیک ٹھیک بتائے گی۔ عموماً مفسرین لکھتے آئے ہیں کہ یہ استعارہ ہے، مگر اب ثابت ہو رہا ہے کہ یہ استعارہ نہیں بلکہ حقیقت ہے اور وہ کتاب فی الواقع بولے گی۔ اللہ تعالیٰ کی شان تو بہت ہی بلند ہے اور قیامت کا معاملہ دنیا سے بہت مختلف ہے، مگر اب انسان نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل سے ایسی ایسی چیزیں ایجاد کر لی ہیں جو وہ سب کچھ دکھا اور سنا دیتی ہیں جو انسان کرتا ہے یا بولتا ہے۔ البتہ وہ کسی کی نیت کو سامنے نہیں لا سکتیں، مگر اللہ تعالیٰ کی تیار کروائی ہوئی وہ کتاب لوگوں کے افعال، اقوال، احوال اور نیتیں سب کچھ سامنے لے آئے گی۔
➋ اِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ: یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اس دن وہ کتاب اتنی مدت بعد کیسے بول کر بتائے گی؟ انھوں نے تو وہ اعمال دنیا میں کیے تھے جو دنیا کے ساتھ ہی ختم ہو گئے۔ فرمایا اس لیے کہ تم جو کچھ کیا کرتے تھے ہم فرشتوں کے ذریعے سے لکھوا لیا کرتے تھے، تاکہ وہ سند رہیں اور قیامت کے دن تم پر حجت قائم ہو سکے، ورنہ ہمیں تو ہر چیز کا پہلے ہی سے علم ہے۔