تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 28)وَ تَرٰى كُلَّ اُمَّةٍ جَاثِيَةً: جَاثِيَةً جَثَا يَجْثُوْ جُثُوًّا (ن) یا جَثٰي يَجْثِيْ جُثِيًّا (ض) سے اسم فاعل ہے، گھٹنوں کے بل گری ہوئی۔ یعنی میدانِ حشر کا ایسا ہول اور رعب ہو گا کہ ہر امت شدید خوف زدہ ہو کر گھٹنوں کے بل گری ہوئی ہو گی۔ نیک ہوں یا بد، سب خوف و دہشت کے ساتھ اسی حالت میں فیصلے کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ اس وقت بڑے سے بڑے متکبر کی بھی ساری شیخی اور اکڑ ختم ہو جائے گی۔

كُلُّ اُمَّةٍ تُدْعٰۤى اِلٰى كِتٰبِهَا: كِتَابٌ سے مراد کتابِ اعمال ہے، جس میں ان کی زندگی کی ساری رو داد حرف بحرف لکھی ہو گی، جیسا کہ فرمایا: «‏‏‏‏وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا فِيْهِ وَ يَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّ لَا كَبِيْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا» ‏‏‏‏ [ الکھف: ۴۹ ] اور کتاب رکھی جائے گی، پس تو مجرموں کو دیکھے گا کہ اس سے ڈرنے والے ہوں گے جو اس میں ہوگا اور کہیں گے ہائے ہماری بربادی! اس کتاب کو کیا ہے، نہ کوئی چھوٹی بات چھوڑتی ہے اور نہ بڑی مگر اس نے اسے ضبط کر رکھا ہے۔ بعض نے فرمایا، اس کتاب سے مراد وہ کتاب ہے جو ہر امت کی طرف ان کے پیغمبر کے ذریعے سے بھیجی گئی، یعنی ہر امت کو اس کی کتاب کی طرف بلایا جائے گا، تاکہ وہ دیکھے کہ اس نے اس پر کہاں تک عمل کیا اور اس کے مطابق اسے جزا دی جائے۔ سیاق کی مناسبت سے پہلا معنی زیادہ درست ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۱۳، ۱۴)۔

اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ: اس سے پہلے کچھ الفاظ محذوف ہیں: أَيْ يُقَالُ لَهُمْ یعنی ان سے یہ بات کہی جائے گی۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.