(آیت 16) ➊ وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ الْكِتٰبَ …: پچھلی آیات ” اَللّٰهُ الَّذِيْ سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ “ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی چند نعمتوں کا ذکر فرمایا جو اس نے تمام انسانوں پر فرمائی ہیں، تاکہ وہ اس کا شکر ادا کریں اور کفر و شرک سے اجتناب کریں اور اس آیت میں ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جو اس نے خصوصاً بنی اسرائیل پر کیں۔ ” الْكِتٰبَ “ سے مراد کوئی ایک کتاب نہیں بلکہ جنس کتاب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں بہت سے صاحب کتاب انبیاء مبعوث فرمائے۔ تورات، انجیل اور زبور تو عام معروف ہیں، ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس نے انھیں کتنی کتابیں عطا فرمائیں۔
➋ وَ الْحُكْمَ: ” الْحُكْمَ “ کا معنی فیصلہ اور قوتِ فیصلہ ہے۔ یہاں مراد یہ ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کو آزادی اور حکومت بخشی، جس میں وہ اپنے فیصلے خود کر سکتے تھے، کیونکہ اپنی حکومت کے بغیر اسلام پر پوری طرح عمل ہو ہی نہیں سکتا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے نجات اور آزادی ملنے پر بنی اسرائیل کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں بادشاہ بنا دیا، کیونکہ آزاد قوم کا ہر فرد ہی بادشاہ ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا: «وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ»[ المائدۃ: ۲۰ ]”اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب اس نے تم میں انبیاء بنائے اور تمھیں بادشاہ بنا دیا اور تمھیں وہ کچھ دیا جو جہانوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔“ بعد میں داؤد علیہ السلام، سلیمان علیہ السلام اور دوسرے اسرائیلی حکمرانوں کی حکومتیں بھی انھیں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اس ” الْحُكْمَ “ میں شامل ہیں۔
➌ وَ النُّبُوَّةَ: بنی اسرائیل میں جتنے نبی مبعوث ہوئے کسی اور قوم میں اتنے زیادہ نبیوں کے آنے کا کہیں ذکر نہیں۔
➍ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ: ان طیبات میں صحرا کے اندر کھانے کے لیے من و سلویٰ، پینے کے لیے بارہ چشمے اور بادلوں کا سایہ بھی شامل ہے اور بعد میں شام و مصر کی زرخیز و بابرکت زمین کی حکومت اور وہاں سے حاصل ہونے والی بے شمار نعمتیں بھی شامل ہیں۔
➎ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلَى الْعٰلَمِيْنَ: اس کی وضاحت کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۴۷) اور سورۂ دخان (۳۲)۔